مال مفت

322

 

ایک اطلاع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے جہاز کی مرمت کے لیے تینتیس کروڑ روپے مختص کردیے گئے ہیں حالانکہ دو سال قبل مارچ 2019 میں جہاز کی مرمت کے نام پر قومی خزانے سے چالیس کروڑ روپے نکالے گئے تھے۔ شاید جہاز کھڑے کھڑے زنگ آلود ہوگیا ہوگا جس نے جہاز کا کباڑ کردیا ہوگا۔ عین ممکن ہے جہانگیر ترین سے عمران خان کی ناراضی کا سبب یہی ہو کہ ترین صاحب ہمیشہ اپنے جہاز میں سفر کرایا کرتے تھے۔ اس کے باوجود خان صاحب اور ان کے حاشیہ بردار بغلیں بجا بجا کر قوم کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان انتہائی سستا وزیر اعظم ہے۔ وہ قوم کے پیسے کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ یہ مشغلہ تو آدھی سے زیادہ کابینہ بھی کررہی ہے۔ مگر جہاز کی مرمت پر عزیزان مصر کی عیاشیوں کا بھی رکارڈ توڑ دیا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی وزیر اعظم اس معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کو چیلنج نہیں کرسکتا رکارڈ توڑنا تو دور کی بات ہے اس کے بارے میں سوچنا بھی قومی جرم سمجھا جائے گا۔ جہانگیر ترین اور عمران خان کے درمیان جو معاملہ فہمی تھی وہ بد گمانی کا عفریت بن چکی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ درمیان میں جو قربت تھی وہ سیاسی قربت کیسے بن گئی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ آدمی غاروں میں رہے یا محلوں میں انداز حکمرانی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ما بدولت کا آسیب انا کے خول سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔
کوئی شیخ رشید کو سمجھائے کہ شیخ جی عمران خان کو آپ کی پیش گوئیوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں کیونکہ وزارت عظمیٰ کی مسند پر جو کشیدہ کاری کی گئی ہے اس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ کشیدہ کار نے اس سلیقے سے اپنی ہنر مندی کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی جانب سے پڑھا جائے پانچ سال ہی لکھا دکھائی دے گا۔ گویا عمران خان کو پانچ سال تک کوئی خطرہ نہیں البتہ موصوف کو یوسف رضا گیلانی بنانے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ حالات حاضرہ کے پیش نظر یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ خان صاحب کو جہانگیر ترین کے جہاز سے کچھ زیادہ ہی لگائو تھا۔ ممکن ہے کہ اس پس منظر میں جہانگیر ترین کو مہذہب ترین دھمکی دینا پڑی۔ موصوف نے وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں دوست ہوں دشمنی کیوں کررہے ہو گویا جہانگیرترین نے بین السطور کہا ہے کہ دشمنی کے جواب میں سنگ باری کی جاتی ہے پھول نچھاور نہیں کیے جاتے۔ عمران خان کا جو رویہ اپنے کھلاڑیوں اور قوم کے ساتھ رہا ہے اس کے پیش نظر یہ سوچنا خوش فہمی ہوگا کہ ترین صاحب کی بات خان صاحب کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔ سیانے کہتے ہیں کہ سمجھ‘ بہت سوچ سمجھ کر چلتی ہے یک سوئی اس کا شیوا ہے آدمی کے قدو قامت کے اعتبار سے سر کی چوٹی سر کرتی ہے۔ اس امکان کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کو رہبری کا عہدہ سونپ دیا جائے۔ تحریک انصاف کی چیئر شپ پر چیئرمین شپ پر فتون مارا جاسکتا ہے۔ قدرت نے عمران خان کو قوم کی خدمت کا موقع دیا تھا مگر عمران خان نے یہ موقع انا کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ چو ر چور کا شور مچانے کے بجائے ملک و قوم کی خدمت کو اپنا منشور بنا لیتے تو قوم کے ہیرو بن جاتے جب کوئی ہیرو زیر و بنتا ہے تو تاریخ کا کچرا گھر غلاظت خانہ بن جاتا ہے۔
قیام پاکستان کی جدوجہد کرنے والوں نے یہ سوچا ہی نہ تھا کہ پاکستان کو کس طرح پاک صاف کریں گے۔ طرز حکومت کیا ہوگا کن لوگوں کو حق حکمرانی دیا جائے گا۔ انہوں نے پاکستان کو تجربہ گا بنانے کے سواء کچھ نہیں سوچا حالانکہ یہ بات تو بچہ بھی جانتا ہے کہ تجربہ تو ایجاد نو پر کیا جاتا ہے۔ بھولے بادشاہوں نے اسلام کو بھی دین اکبر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ اسلام سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ مگر مشاہدہ اور مطالعہ کہتا ہے کہ حکمران طبقہ علماء دین کی مخالفت کے خوف سے ایسا قانون بنانے کے بجائے۔ نافذ کردیتے ہیں اور قابل غور معاملہ یہ بھی ہے کہ صدر مملکت کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے صدارتی آرڈنینس پر دستخط پر کرالیے جاتے ہیں۔ آخر وہ بھی ریاست پاکستان کے تنخواہ دار ملازم ہیں۔ اور ملازمین سے کام لینا ان کی کارکردگی کا جائزہ لینا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اور وزیر اعظم عمران خان ایک ذمے داری آدمی ہیں۔ اور جہاں تک بیوی بچوں کی ذمے داری کا تعلق ہے تو بیوی کی بھی کوئی ذمے داری ہوتی ہے۔