پاک روس تعلقات تاریخ کا نیا دھارا

400

روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے جنوبی ایشیا کے دورروایتی حریف ملکوں بھارت اور پاکستان کا اہم دورہ کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے دورے کے مقاصد نتائج اور عواقب قطعی مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ کا بھارت کا دورہ نہایت روکھا پھیکا رہا۔ ان کی ملاقات بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی سے نہ ہو سکی۔ بھارت میں ان کا رابطہ اپنے ہم منصب وزیر خارجہ جے شنکر تک محدود رہا جبکہ پاکستان کا دورہ بہت بامعنی اور اشاروں کنایوں سے بڑھ کر واضح پیغامات سے بھرپور رہا۔ اس دورے پر گرم جوشی کا رنگ غالب رہا۔ انہوں نے اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ کئی دوطرفہ معاہدات پر دستخط کیے۔ مستقبل کے عہدو پیماں ہوئے۔ یوں لگ رہا تھا کہ روسی وزیر خارجہ بھارت میں محض کوئی الوداعی پیغام دینے گئے تھے اور پاکستان میں دوستی کے عہدو پیماں کرنے آئے تھے۔ الوداعی پیغام اس لیے کہ روس اور بھارت ایک طویل عرصے تک اتحادی رہے ہیں اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھارت نے اپنا مورچہ تبدیل کرکے امریکا کے پروں تلے پناہ لی۔ اب جبکہ روس سوویت یونین کے زوال کے بعد دوبارہ طاقت کی نئی انگڑائی لے رہا ہے بھارت بدستور امریکی پنگھوڑے میں جھولے لے رہا ہے اور وہ پلٹ کر ماضی کے دوست روس کی جانب دیکھنے کو روادار نہیں۔ روس نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے جنوبی ایشیا ہی میں اپنا ایک نیا حلیف دریافت کرلیا ہے اور وہ حلیف پاکستان ہے۔ روس بھارت کی بے وفائی کا شکار ہے تو پاکستان امریکا کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے چوٹ کھائے ہوئے ہے اور یوں روس اور پاکستان کو اپنے اپنے بے وفائوں نے یکجا ہونے پر مجبور کیا ہے۔
روس اور چین دو بڑے عالمی کھلاڑی ہیں جو اس وقت امریکا کی اجارہ داری کے لیے کھلا چیلنج نہیں بلکہ طاقت کے توازن کے قیام کے لیے بھی متحرک ہیں۔ امریکا کی یک قطبی جنگ کو متوازن بنانے کے لیے ہونے والی کوششوں کو امریکا پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا بلکہ اس عمل کی بھرپور مزاحمت بھی کر رہا ہے۔ اس عمل میں پاکستان کا کردار اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کا بڑا ملک بھارت اپنا پورا وزن امریکا کے پلڑے میں ڈالے ہوئے ہے۔ ایسے میں پاکستان کا کردار اہم ہورہا ہے۔ پاکستان مستقبل کے اُبھرتے ہوئے منظر نامے میں اپنے مقام کا تعین کر چکا ہے۔ وہ مقام یہ ہے کہ پاکستان مغربی بلاک کے بجائے ایشیائی بلاک روس اور چین کا حصہ ہوگا۔
بھارت اور روس کا ماضی جس قدر پرجوش اور دوستانہ ہے پاکستان اور روس کا ماضی اتنا ہی تلخ ہے۔ پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے امریکی دفاعی معاہدات کا حصہ بنا جو سانڈ کو سرخ رومال دکھانے کے مترادف تھا۔ یہ معاہدات سوویت یونین کی مخالفت اور خطرے کا مقابلہ کرنے کی غرض سے ہی کیے جا رہے تھے۔ ان معاہدات کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے سوویت یونین پاکستان کے درپہ ٔ آزار ہی رہا۔ دونوں ملکوں میں مستقل کھچائو اور کشمکش جا ری رہی۔ روس گرم پانیوں کی تلاش میں تھا اور پاکستان میں یہ احساس بہت مضبوط رہا کہ روس افغانستان کے راستے ساحل کراچی تک آنا چاہتا ہے۔ اس احساس نے پاکستان کو امریکی کیمپ کا حصہ بنائے رکھا۔ ایک منظم منصوبہ بندی سے اس تاثر کو گہرا بھی کیا گیا۔ اس طرح پاکستان اور سوویت یونین کے درمیان دشمنی کی سی کیفیت موجود رہی۔ اس دوران سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور پاکستان نے اس جنگ میں افغان مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس جنگ اور سوویت یونین کے عالمی کردارکا انجام کا ایک ساتھ ہوا۔ روس افغانستان سے نکل رہا تھا تو اس کی سپر پاور کی حیثیت کا سورج بھی تیزی سے غروب ہو رہا تھا اور وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کی ریاستیں سوویت یونین سے الگ ہو رہی تھیں۔ اس سنگین دھچکے کے بعد سوویت یونین روس بن گیا اور روسی قیادت نے ساری توجہ ملک کی اقتصادیات کو بہتر بنانے پرمرکوز کیے رکھی۔ اس عرصے میں روس کو ولادی میرپیوٹن کی متحرک اور آہنی اعصاب کی حال قیادت میسر آئی اور روس ایک تسلسل کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن رہا۔ اپنی حالت درست کرنے کے بعد روس نے دوبارہ عالمی معاملات میں دلچسپی دکھانا شروع کی اور اس کا پہلا مظاہر ہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کو عرب بہار سے بچانے کے لیے فعال کردار کی صورت میں ہوا۔
روس نے اپنے روایتی اتحادی شامی حکمران کو عرب بہار کی اس لہر کا شکار نہ ہونے دیا جس کے بارے میں اب یہ تاثر گہرا ہو چکا ہے کہ امریکا کے مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے سوشل میڈیا کی قوت کے ذریعے برپا کیا جانے والا کھیل تھا۔ عرب بہار کا نتیجہ جہاں امریکی سوچ اور خواہش کے برعکس برآمد ہوا اس کا انجام مصر کے اخوان المسلمون اور صدر محمد مرسی کی صورت میں ہوا۔ 2011 میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ روس افغانستان کے حالات میں بھی دلچسپی لے رہا ہے۔ یہ دلچسپی روس اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے قیام کی بنیاد بنی۔ دونوں ملکوں میں ماضی کو بھلا کر خوش گوار تعلقات کے اشاروں کا تبادلہ ہونے لگا۔ معاملات اس رخ بڑھتے چلے گئے۔ بھارت امریکا کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ ایک مرحلے پر روسی قیادت نے جل بھن کر بھارت پر مغربی طاقتوں کا دُم چھلہ ہونے کی پھبتی کس دی۔ جس طرح روس اور بھارت کے تعلقات میں اب دنیا کو دکھانے اور مضبوط بنانے کو کچھ نہیں اسی طرح پاکستان اور روس کے تعلقات میں کرنے کے نئے جہان اور میدان ہیں۔ روس اور بھارت کے تعلقات قریب قریب ویسے ہیں جوحالت امریکا اور پاکستان کے تعلقات کی ہے۔ جن کا محض بھرم سا باقی ہے۔ ان حالات میں روسی وزیر خارجہ کا دورہ پاکستان اور روس کے تعلقات کو تاریخ کی قید سے آزاد کرکے گرم جوشی کے نئے راستوں پر ڈالنے کا باعث بنے گا۔