ایران ایٹمی پلانٹ پر اسرائیل و امریکا کاحملہ

490

اسرائیلی اخبارات کے مطابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے پہلے دورۂ اسرائیل کے موقع پر اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹزکا کہنا تھا کہ: ’’آج کا تہران بین الاقوامی سلامتی، مشرق وسطیٰ اور اسرائیلی ریاست کے لیے ایک اسٹرٹیجک خطرہ ہے۔ جس کے فوری بعد اسرئیل نے پہلے بلیک آؤٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے ایرانی ایٹمی پلانٹ کے دفاعی نظام کو مکمل طور سے ناکارہ بنایا اور اس کے بعد ایران کے ایٹمی پلانٹ پر دھماکا کرکے بھاری نقصان پہنچایا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ بتا رہے تھے کہ امریکا نے حال ہی میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے بات چیت شروع کر دی ہے جس سے اسرائیلی حکومت کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایران کے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرکے امریکا کو متنبہ کیا کہ وہ ایسا کرنے کی ہرگز کوشش نہ کر ے۔ اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے 11 اپریل 2021ء کو امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران امریکا کے تعلقات پر اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ان کی نظر میں واشنگٹن اسرائیل کا پکا ساتھی ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی نئے سفارتی معاہدے سے علاقائی سلامتی پر سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ امریکا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ایران کے ساتھ کوئی بھی نیا معاہدہ دنیا اور امریکا اور اسرائیل کے مفادات کو تحفظ فراہم کرے گا، اس سے علاقے میں ہتھیاروں کی خطرناک مسابقہ آرائی کو بھی روکا جا سکے۔
ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی وزیر دفاع نے اسرئیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی جو ایران کو اسرائیل کا سب سے خطرناک دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کی حکومت ایران کے ساتھ امریکا کے جوہری معاہدے کی ماضی میں حامی نہیں تھی اور اب بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں وقتی طور پر بند کرے گا اور بالآخر وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ تہران کا موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ہتھیاروں کے حصول نہیں بلکہ توانائی کی ضروریات کے لیے ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اس کی جوہری تنصیب پر اسرائیل کا مشتبہ حملہ کیا گیا ہے لیکن اس کو خدشہ ہے کہ یہ حملہ صرف اسرائیل ہی کر سکتاہے حملے کی بنیادی وجہ ہے بتائی جارہی ہے کہ ایران نے 11اپریل 2021ء کو یورینیم کو تیزی سے افزودہ کرنے کے جدید سینٹری فیوجز کا اعلان کیا تھا، اس کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے زیر زمین جوہری پلانٹ کی بجلی پوری طرح سے گل ہو گئی۔ ایرانی جوہری پروگرام کے ترجمان بہروز آفندی نے ایران کے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اس سے جوہری تنصیب کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ عالمی اخبارات کا کہنا ہے کہ یہ حملہ الیکٹرو میگنیٹک پلزویپن کی مدد سے جوہری پلانٹ کی بجلی بلیک آؤٹ ہتھیار سے پوری طرح سے گل کر کے کیا گیا ہے۔
اس واقعے کی ابتدا میں تو ایرانی حکام نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تاہم بعد انہوں نے پلانٹ میں بجلی چلے جانے کو ’’جوہری انسداد دہشت گردی‘‘ سے تعبیر کیا۔ عالمی جوہری نگراں ادارے (آئی اے ای اے) میں ایرانی نمائندے علی اکبر صالحی نے ادارے سے اس طرح کے واقعے سے نمٹنے کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے اسرائیل یا کسی اور ملک کا نام بھی نہیں لیا۔ ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق ’’اسلامی جمہوریہ ایران، اس دہشت گردانہ تحریک کے اہداف کو ناکام بنانے کے لیے، ایک طرف تو اپنی جوہری ٹیکنالوجی میں بہتری لانے اور دوسری طرف جابرانہ پابندیوں کو ختم کرانے کی کوشش جاری رکھے گا۔ قبل ازیں بھی 2010 میں نطنز کے جوہری پلانٹ ہی میں سائبر حملے سے اس کو کافی نقصان پہنچا تھا اس کے لیے ایرانی میڈیا نے امریکا اور ایران پر الزام عائد کیا تھا۔
امریکا نے ہی حال میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ بات چیت دیگر عالمی طاقتوں کے توسط سے بالواسطہ ہے اس کے باوجود اسرائیلی حکومت میں خوف پایا جاتا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکا کو 2018ء میں یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے دو روزہ دورہ ٔ اسرائیل کے موقع پر یہ بات کہی کہ واشنگٹن امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو خطے کی سیکورٹی کے لیے بہت اہم سمجھتا ہے اور امریکا اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ’’اسرائیل اور اسرائیلی عوام کے ساتھ اس کا جو مضبوط رشتہ ہے‘‘۔ اس لیے اسرائیل کی فوجی قوت کو خطے میں برتری حاصل ہونی ضروری ہے اور اسرائیل امریکا کے تعلقات بہت مضبوط ہے۔
امریکا کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران کو تجاویز پیش کردی ہیں، جن پر اب تہران کے جواب کا انتظار ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ: ’’امریکی ٹیم نے انتہائی قابل ِ قبول تجاویز پیش کی ہیں اور اگر ایران معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو امریکا بھی اس کے بارے میں مثبت جواب دے گا امریکا ایران کے جواب کا منتظر ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن سابق صدر بارک اوباما کے دور میں ہونے والا جوہری معاہدہ بحال کرنا چاہتے ہیں جب وہ امریکا کے نائب صدر تھے۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے جوہری سرگرمیوں کو ڈرامائی طورپر کم کررہا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں تہران کا کہنا ہے کہ کسی پیش رفت سے پہلے امریکا کو ایران پرعائد تمام پابندیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ ایرنی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ امریکا، جس نے اس بحران کو پیدا کیا، پہلے اپنے وعدوں پر مکمل کرے۔ ایران پھر جوابی اقدام کرے گا۔ ان کا مزید کہا ہے کہ ٹرمپ نے ایران کے خلاف جتنی بھی پابندیاں لگائیں، وہ ایران کے جوہری معاہدے (جے سی پی او اے) کے خلاف تھیں اور انہیں فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے۔
ویانا مذاکرات میں موجود ایرانی حکومت کے نمائندے عباس عراقچی نے ’’دیگر فریقین اور امریکا کی سنجیدگی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بغیر ’’بات چیت جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں‘‘۔ یورپی یونین کی صدارت میں ہونے والی تازہ ترین بات چیت میں ایران کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس شامل ہیں۔ امریکی وفد بھی ویانا میں موجود ہے لیکن ایران نے امریکا سے براہ راست مذاکرات سے انکار کردیا ہے۔ یورپی یونین کے سفارت کار ایک دوسرے ہوٹل میں مقیم امریکی وفد کو مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ مذاکرات کے بارے میں یورپی یونین کی نمائندگی پر بات چیت تعمیری اور نتیجہ خیز رہی۔ ’’ماسکو کے سفیر میخائل اولیانوف کا کہنا تھا کہ ’’شرکا نے میٹنگ میں ہونے والی ابتدائی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور امید ہے کہ یہ مثبت رفتار برقرار رہے‘‘۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے بھی بات چیت کو ’’تعمیری‘‘ قرار دیا۔ بات چیت کا اگلا دور پیر سے ہوگا۔ خبر ہے کہ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے دورے کے دوران اسرائیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کی سپلائی پر بھی بات چیت کو آگے بڑھایا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی وزیرِ دفاع جوہری مذاکرات کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لیے اسرائیل کی مدد سے ایران کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا کر پاکستان کو بھی دھمکانے کے مشن کو کامیاب بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں؟