کرپشن سے پاک پاکستان ایک خواہش

392

قیام پاکستان کے لیے بانیان پاکستان اور ہجرت کرکے پاکستان کو پاکستان بنانے کے لیے جو لازوال قربانی دی ہیں میں نے اُن کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ مجھے دنیا کا کوئی ملک پسند نہیں ہے نہ مجھے وہاں جانے کا کوئی شوق ہے۔ مجھے کسی ملک کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہیں، بس اپنے ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میرے ملک میں انصاف کا بول بالا ہو۔ سرکاری ملازمین، حکمران اپنے آپ کو قوم کا خادم سمجھیں۔ رشوت اور کرپشن سے پاک پاکستان ہوجائے، لسانیت اور فرقہ واریت سے ملک پاک ہوجائے، میرے ملک کے غریبوں کو جینے کا مکمل حق حاصل ہو۔ ایک تعلیمی نظام رائج کیا جائے۔ امیری اور غریبی کے فرق کو ختم کیا جائے، تمام نوکریاں میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر دی جائیں، کرپشن اور بچوں سے زیادتی کرنے والوں اور انہیں قتل کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے۔ میرے آقا میرے سرکارؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے واجب القتل قرار دیے جائیں۔ شادی بیاہ کو آسان بنایا جائے۔ جہیز پر مکمل پابندی لگادی جائے، شادی کی تقریبات کا وقت جو اپنی مقرر کیا گیا ہے 6 سے 9 رات بے حد اچھا حکومت کا اقدام ہے اس کو جاری رہنا چاہیے۔ کھانے میں صرف ایک ڈش کی اجازت دی جائے۔ چائنا کٹنگ کو قومی جرم قرار دیا جائے۔ صحافیوں جو چھوٹے اخبارات سے وابستہ ہیں ان کی فلاح وبہبود کے لیے خصوصی فنڈز رکھیں، تعلیم بالکل مفت، صحت بالکل مفت ہو، صحت کارڈ ہر اُس پاکستانی شہری کو جاری کیا جائے جو قومی شناختی کارڈ کا حامل ہے۔ محکمہ پولیس جس کا کام جرائم کو روکنا ہوتا اُس ہی محکمے کے لوگ جرائم میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ SHO’s سے لے کر اُوپر تک سب کی جائدادوں کی انکوائری کرائی جائے، اربوں روپے قومی خزانے میں آسکتے ہیں۔ ہر ادارے میں کرپشن موجود ہے سونے کا انڈا دینے والے بے شمار قومی اداروں کی نج کاری کرکے لوگوں سے روزگار چھین لیا گیا۔ اسٹیل مل کو سیاسی لیڈروں اور نوکرشاہی نے تباہ کرکے رکھ دیا۔ سیاسی جماعتوں نے گنجائش سے زیادہ اداروں میں بھرتی کرکے قومی اداروں کو ناتلافی نقصان پہنچایا۔ جس سیاسی جماعت کو بھی اللہ نے حکمرانی سے نوازا اُس نے قوم کی بھلائی کے بجائے اپنی اور اپنے خاندان کی بھلائی کے کام شروع کردیے، پھر جب ابن آدم ایک جماعت کی تعریف کرتا ہے تو سیاسی جماعتوں کو برا لگتا ہے۔ جماعت اسلامی کے کسی رہنما کو اُٹھا کر دیکھو کسی ایک پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں ملتا اِس کی وجہ وہ تربیت ہے جس میں اسلام کا اصل رنگ نظر آتا ہے۔ ابن آدم جانتا ہے کہ ایسی جماعتوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ملک میں اللہ نے بڑے بڑے باصلاحیت لوگ دیے ہیں، زندگی کے ہر شعبے میں ایک سے ایک قابل شخص موجود ہے مگر افسوس کہ جس عزت کا وہ حقدار ہوتا ہے اس کو وہ عزت نہیں ملتی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر کو کیا عزت دی جبکہ بھارت نے اپنے ایٹمی سائنسدان کو صدر بنادیا۔ ہمارے وزیراعظم کاموں کا تجربہ رکھتے ہیں اور ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ وزیراعظم اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر پاکستان بنادیتے تو ان کی مقبولیت کا گراف اور اوپر چلا جاتا۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ تنقید برائے تنقید کے فلسفے پر کام نہ کریں ہر جماعت کو چاہیے کہ وہ باکردار کارکن بنائیں جو ملک کے لیے کچھ کرسکیں۔