اسلام اور مسلمانوں کا محاصرہ

329

ملی مجلس شرعی نے وقف املاک ایکٹ کو وفاقی شریعت عدالت اور عدالت عظمیٰ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام مرکز جماعت اسلامی منصورہ میں مساجد و مدارس کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس موقع پر منظور ہونے والی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ دینی جماعتوں کے افراد نے پارلیمنٹ کے پاس کردہ دارالحکومت وقف املاک ایکٹ 2020ء اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے پاس کردہ پنجاب وقف املاک ترمیمی بل مجریہ 2020 کا جائزہ لیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں نے یہ بل عجلت میں منظور کیے ہیں۔ انہوں ے نہ رائے عامہ جاننے کے لیے انہیں مشتہر کیا اور نہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا اور نہ ان سے مشورہ کیا۔ اگر ان قوانین کو من و عن نافذ کیا گیا تو مساجد اور مدارس یا تو بند ہوجائیں گے یا حکومت کے کنٹرول میں چلے گئے ہیں۔ کانفرنس میں علماسے کہا گیا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے دوران مساجد سے اس سلسلے میں آواز بلند کریں اور رائے عامہ ہموار کریں۔ مغربی دنیا ایک ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے محاصرے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ مغربی دنیا ہی تھی جس نے اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے کے لیے صلیبی جنگیں ایجاد کیں۔ 1095ء میں اس وقت کے پوپ نے معاذاللہ اسلام کو ایک شیطانی مذہب قرار دیا اور عیسائی یورپ کو ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہونے کی دعوت دی۔ یورپ 1099ء میں عملاً ایک صلیبی جھنڈے کے نیچے جمع ہوا اور اُن جنگوں کا آغاز ہوا جو دو سو سال تک جاری رہیں۔ اگرچہ پہلے مرحلے میں مسلمانوں کو شکست ہوئی مگر سلطان صلاح الدین ایوبی نے بالآخر منظر پر طلوع ہو کر صلیبوں کو شکست فاش دی۔اور انہیں کھڈیڑتا ہوا یورپ تک لے گیا۔ مغرب نے 19 ویں صدی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دوسری یلغار ایجاد کی۔ مغربی اقوام کسی اخلاقی اور عسکری جواز کے بغیر اپنے اپنے جغرافیے سے نکلیں اور کم و بیش پورے عالم اسلام پر قابض ہوگئیں۔ مغربی طاقتوں نے نوآبادیاتی دور میں مسلمانوں کو صرف اپنا سیاسی غلام ہی نہیں بنایا انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی غلامی کو تہذیبی غلامی میں ڈھالا۔ متشرقین نے اس دور میں اسلام اور سیرت طیبہ پر رکیک حملوں کا آغاز کیا۔ اہلِ مغرب نے مسلمانوں پر اپنا نظام تعلیم اور اپنی زبانیں مسلط کیں۔ انہوں نے مسلمانوں کے روایتی علوم فنون اور زبانوں کو پس منظر میں دھکیلا۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے قانون کے تابع کیا۔ انہوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ مسلمانوں میں ان کے ماضی کی تحقیر پیدا کی جائے۔ انہوں نے مسلمانوں میں کالے انگریزوں اور کالے فرانسیسیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جو بظاہر مقامی تھا مگر اس کا پورا ذہنی سانچہ مغربی تھا۔ مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تیسری یلغار نائن الیون کے بعد شروع کی۔ امریکا کے صدر جارج بش نے اپنے خطاب میں صاف کہا کہ انہوں نے کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ اٹلی کے وزیراعظم سلویوبرلسکونی نے کہا کہ مغربی تہذیب اسلامی تہذیب سے برتر ہے اور اس نے جس طرح کمیونزم کو شسکت دی ہے اسی طرح وہ اسلامی تہذیب کو بھی شکست دے گی۔ مغرب کی یہ یلغار اب تک جاری ہے۔ مغربی دنیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے مسلم ملکوں کی معیشتوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ مسلم دنیا کے فوجی اور سول حکمران مغرب کے آلۂ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مغرب اپنے یہاں برقعے اور اسکارف کو خلاف قانون قرار دے چکا ہے۔ فرانس میں مساجد کو تقریباً قومیا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں مساجد اور مدارس کے محاصرے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مساجد اور مدارس کی آزادی اسلام اور مسلمانوں کی آزادی ہے۔ مسلم دنیا میں جہاں جہاں مساجد اور مدارس حکومت کنٹرول میں گئے ہیں وہاں وہاں اسلام کی آواز کو کچلا جارہا ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ برصغیر میں انگریزوں نے مدارس کو مالی امداد دینے کی کوشش کی مگر علما نے انگریزوں کی امداد قبول نہ کرکے مدارس کی آزادی کو محفوظ رکھا۔ مگر اب جب کہ ہم آزاد ہیں تو پاکستان کا حکمران طبقہ مساجد‘ مدارس اور علما پر اس بات کے لیے دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ حکومت کی ہر پابندی کو قبول کرلیں۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ مغرب ایک ایسا اسلام ایجاد کرنا چاہتا ہے جو ظاہر میں اسلام ہو مگر اس کا باطن مغرب کے رنگ میں رنگا ہواہو۔ خوشی کی بات ہے کہ علما کی عظیم اکثریت کو اس بات کا شعور ہے چنانچہ علما اپنی سطح پر مساجد اور مدارس کے خلاف مغرب اور اس کے مقامی آلۂ کاروں کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مزاحمت کو قومی اور عوامی رنگ دیا جائے۔ مجلس ملّی شرعی کا یہ فیصلہ بڑا صائب ہے کہ رمضان کے دوران علما مساجد اور مدارس کے خلاف سازش کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کریں۔ اس سلسلے میں جلسے‘ جلوسوں اور ریلیوں کا اہتمام بھی ہونا چاہیے‘ اس سلسلے میں سیمینار بھی منعقد کرنے کی ضرورت ہے‘ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ پر بھی مہم برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ مساجد اور مدارس کی آزادی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ باطل کے خلاف معاشرے کی مزاحمتی صلاحیت بہت کمزور پڑ گئی ہے۔ مساجد اور مدارس بھی اگر ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تو معاشرے میں ہر طرف سناٹے کا راج ہوگا اور مغرب اپنے آلۂ کاروں کے ذریعے مسلم معاشرے کو جس طرح بدلنا چاہے گا‘ بدلے گا۔