حکومت کا مردم شماری پر تماشا 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری نئی جلد کرانے کا اعلان

272
اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کی صدارت کررہے ہیں

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) وفاقی حکومت نے مردم شماری پرنیا تماشا لگادیا۔وزیراعظم کی زیرصدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس ہوا جس میں 2017ء کی متنازع مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کے لیے اپنی مرضی فیصلہ منظورکرالیا گیا۔ پنجاب اور کے پی کی حکومتوں نے مردم شماری نتائج جاری کرنے کی حمایت جبکہ سندھ نے مخالفت کی اور تحفظات کا اظہار کیا۔ سندھ حکومت نے مردم شماری کے نتائج کو آئندہ مردم شماری سے منسلک کرنے کی تجویز دی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے مردم شماری کے نتائج پر اختلافی نوٹ لکھا۔بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے معاملے پر مشاورت کے لیے وقت مانگا تاہم 2017ء کی متنازع مردم شماری کے نتائج جاری کرنے کا فیصلہ سنادیا گیا۔بعد ازاں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 2017ء کے مردم شماری پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں تاہم اس کے نتائج جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی ہوا کہ اگلی مردم شماری فوری بنیاد پر کرانی ہے، دنیا کے بہترین طریقہ کار سے اگلی مردم شماری کرائیں گے جس میں تمام صوبوں اور سول سوسائٹی کو شرکت دی جائے گی۔ان کا کہنا تھاکہ 6سے 8ہفتے میں اس کا بنیادی فریم ورک تیار ہوجائے گا، ستمبر یا اکتوبر تک نئی مردم شماری شروع ہو جائے گی، 18 مہینے کا عمل 2023 ء کے شروع میں مکمل ہو جائے گا، آئندہ الیکشن نئی مردم شماری پر ہوں گے، جس سے قبل حلقہ بندی بھی کرائی جاسکے گی۔وفاقی وزیرمنصوبہ بندی نے 2017 ء کی مردم شماری پر سندھ حکومت کے اعتراضات کے بارے میں کہا کہ یہ کام اسی صوبائی حکومت کی نگرانی میں ہوا جس نے آج فیصلے کی مخالفت کی، جو بھی نتائجمردم شماری کے آئے اس میں صوبائی حکومتوں کی مکمل شمولیت تھی، صوبے میں نہ وفاق میں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی، اگر اس مردم شماری کو نہیں مانتے تو کیا1998 ء پرچلے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی مردم شماری پر سیاست، سیاست کھیلی جا رہی تھی اور کہا گیا کہ مٹی پاؤ، اگلی حکومت پر ڈال دو۔اسدعمر نے کہا کہ پچھلی مردم شماری کو کیسے ٹھیک کرنا ہے؟ کوئی طریقہ کار بھی بتا دے۔ نئی مردم شماری کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے،جن صوبائی حکومتوں نے مردم شماری کروائی، وہی سوال اٹھا رہے ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ضمنی انتخابات پرانی حلقہ بندیوں اور مردم شماری سے ہو سکتے ہیں لیکن مقامی حکومتوں کے انتخابات نئی مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے اور اس میں عدلیہ کی بھی بہت زیادہ دلچسپی ہے۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ 2023 ء الیکشن سے پہلے مردم شماری پر حتمی فیصلہ نہ ہو تو آئینی ترمیم کا استثنا ختم ہونے کے سبب اگلا الیکشن 1998 میں ہوئی مردم شماری کی بنیاد پر ہو گا جس کے نتیجے میں تینوں چھوٹے صوبوں کی اسمبلی میں نمائندگی کم ہو جائے گی اور پنجاب کی نمائندگی بڑھ جائے گی۔