امت مسلمہ پیغمبروں کا علمی و رثہ آگے بڑھانے اور اس کی حفاظت کی ذمہ دار ہے

337

کراچی ( رپورٹ:محمد علی فاروق ) علم کا اصل منبع اللہ رب العزت ہے، انبیا کرام انسانیت تک علم پہنچانے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں، علما انبیا کے وارث ہیں لیکن پوری امت مسلمہ کی ذمے داری ہے کہ وہ پیغمبروں کا علمی ورثہ آگے بڑھائے اور اس کی مکمل حفاظت کرے،علم نظری پہلو اور حکمت عملی پہلوبیان کرتی ہے ، نبی مہربان ؐ نے صحابہ کرامؓ کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جبکہ منجنیق کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ، مسلمان علم کی افادیت ، اخلا قیات اور اللہ کی بنائی حدود کے قائل ہیں، عصری علوم کا منبع بھی انبیا کے علوم سے ہی نکلتا ہے، اگر کوئی اس علم کو لادین یا سیکولر بنا نا چاہتا ہے تو وہ علم کے ساتھ زیا دتی ہے،حضور اکرمؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اب یہ ذمے داری امت مسلمہ کی ہے کہ وہ اس علم اور حکمت کو انسانیت تک پہنچائے اور اس کی حفاظت بھی کرے ،اگر انبیا کے بتائے ہوئے احکامات اور تقاضوں کو پامال کیاجائے گا تو پھر تباہی وبربادی زندگی کے ہر شعبے کا مقدر بن جائے گی ۔ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر حافظ محمد ادریس ، رئیسہ کلیہ معارف اسلامی پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی اور برطانیہ میں مقیم مفتی سادات احمد نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر حافظ محمد ادریس نے کہا کہ علم کا اصل منبع اللہ رب العزت ہے، انبیا کرام انسانیت تک علم پہنچانے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے منتخب کیے گئے کیونکہ ان کے پاس وحی کا علم تھا جو حقیقی ، سچا علم ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے ، انبیا کا علم نماز روزے تک محدود نہیںہے اللہ کے رسول ؐکو دنیا میں اس لیے مبعوث کیا گیا کہ ان کا علم ونظریہ تمام نظریوں پر غالب آجائے، حضور اکرم ؐکا ارشاد ہے کہ انبیا کرام درہم ودینارکے وارث نہیں بناتے بلکہ وہ توعلم کے وارث بناتے ہیں ، لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے پورا حصہ پا لیا۔علم اہل علم کو منتقل ہوتا ہے بیشک علما انبیا کے وارث ہیں، علم نظری پہلو اور حکمت عملی پہلوبیان کرتی ہے ، حضور اکرم ؐ نے یہ علم انسانیت تک پہنچاکر حق ادا کر دیا ،حضور اکرم ؐ کے بعد کوئی نبی نہیںہے اب یہ ذمے داری امت مسلمہ کی ہے کہ وہ اس علم اور حکمت کو انسانیت تک پہنچائے اور اس کی حفاظت بھی کرے جبکہ مادی ، روحانی ، اخلاقی اور سیاسی فوائد بھی انسانیت کو بتائے ، اگر کوئی اس علم کو لادین یا سیکو لر بنا نا چاہتا ہے تو وہ اس علم کے ساتھ زیا دتی ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے انسان کو علم سکھا یاہے اور آج کل علم کے جتنے بھی ذریعے ہیں اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ حافظ ادریس نے کہا کہ علم انبیا کی وراثت کے معنی یہ نہیں کہ اس پر ان کی اجارہ داری ہے یہ شعبہ سب کے لیے آزاد ہے اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے صرف اخلاص اور دیانتداری کی ضرورت ہے ، علما کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ بتائیں کہ علم صرف جاننے کا نام نہیںبلکہ اس کے ساتھ اس پر درست طریقے سے عمل پیر اہونا لازمی ہے، اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے کہ وہ بات کیو ںکہتے ہوجس پر عمل نہیںکرتے،مدینے کی ریا ست کا ارتقا ہی علم کی بنیا د پر ہوا ، عصری علوم کا منبع بھی انبیا کے علوم سے ہی نکلتا ہے، موجودہ دور کی زبوں حالی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے حقیقی علم کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نقالی پر اتر آئے ہیںاور نقالی میں ہم نے علم ہی نہیں بلکہ اخلاقیات ، معاشرت ، سماج ،ثقافت یعنی خدا کو نہ ماننے والوںکے علمبردار وں کی ہر چیز کو اپنالیا، انبیا کرام نے انسان کو اندھیرے میں نہیں چھوڑا نبی مہربان ؐ نے صحابہ کرامؓ کو عبرانی زبان سیکھنے کی ترغیب دی جبکہ منجنیق کی ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنے کے لیے کہا گیا ،مسلمان علم کی افادیت پر ہی یقین نہیںرکھتے بلکہ وہ اس کی اخلا قیات اور اللہ کی بنائی حدود کے قائل بھی ہیںان حدود میں اللہ تعالیٰ نے انسان ، جانوروںاور نباتا ت سمیت تمام چیزوںکے حقوق کا تعین کیا ہے ۔ رئیسہ کلیہ معارف اسلامی پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے اور اس نے اپنے علم کا کچھ حصہ انبیا کرام کو عطا کیا تاکہ وہ اپنی اپنی امت کی رہنمائی کر سکیں اور علم کو منتقل کر سکیں اللہ تعالیٰ کا انسان کی تخلیق سے متعلق فرشتوں سے مکالمہ ہوا اس میں بھی فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے یہی کہا کہ اے اللہ ہم اتنا علم رکھتے ہیں جتنا تو نے ہمیں عطا کیا ہے ،اسی طرح قرآن میں حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے جو تا ویلا ت پیش کیں کہ اللہ تعالیٰ جس کو جتنا چاہیے اورجس نوعیت کا چاہیے علم عطا کر دے ،انہوں نے کہا کہ اصل اہمیت علم کی ہے قرآن کریم میں عالم کو جاہل پر فضیلت دی گئی ہے ،لہٰذارسول اللہ ؐ کے فرمان کے مفہوم کے مطابق علما انبیا کے وارث ہیں تو پھر چاہے کوئی کسی سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ انبیا کی تعلیمات پر عمل کر ے گا تو یقینااس کا فیض پائے گا ، حضور اکرم ؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اس لیے بحیثیت مسلمان ہم پر پیغمبر وں کی تعلیمات کے ورثے کی حفاظت کی ذمے داری عاید ہوتی ہے ۔برطانیہ میں مقیم مفتی مولانا سادات احمد نقشبندی نے کہا کہ قرآن میں ارشاد ہے ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو صورت عطا کی پھر رہنمائی فرمائی یہ رہنمائی وہ فطری علم ہے جو تمام مخلوقات کو ان کی ضروریات کے پیش نظر عطا کی گئی ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا یہی علم انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے یہی علم میراث انبیا بنا اور اس ورثے کا امین مسلمانوں کو بنا یا گیا۔جس نے اس علم کو اللہ اور انبیا کے بتائے ہوئے تقاضوں کے مطابق حاصل کیا اور انسانوں تک پہنچایا اس نے حق ادا کر دیا۔ لیکن جب اس علم کے حصول کے لیے اللہ اور اس کے انبیا کے بتائے ہوئے احکامات اور تقاضوں کو پامال کیا گیا تو پھر اس علم نے دنیا کو خطرناک ہتھیار دیے اور پھر انسان مہلک ترین بیماریوں،فحاشی عریانی جیسی صورت حال میں مبتلا ہو گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ تباہی اور بربادی زندگی کے ہر شعبے کا مقدر بن گئی ۔