دوسرے ملک جانے کیلئے خود کو پوسٹ میل کردینے والا نوجوان

457

برائن روبسن 19 سال کا تھا جب اس نے 1965 میں آسٹریلیا سے لندن جانے کیلئے ایک احمقانہ منصوبے پر عمل درآمد ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ بے حد گھریلو پریشانی میں مبتلا تھ اور گھر سے فرار چاہتا تھا لیکن وکٹورین ریلوے کے لئے کام کرنے والے برائن کے پاس 700 ڈالر کے طیارے کے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کافی پیسے نہیں تھے۔

دو دوست پال اور جان سے بات کرنے کے بعد تینوں نے ایک انوکھا منصوبہ طے کیا۔ انہوں نے اسے ‘ایک منی سوٹ کیس میں بند کیا اور اسے میل کرکے لندن جانے والی فلائٹ پر بھیج دیا۔

برائن کا کہنا ہے کہ انہیں ان دونوں کی مدد کی ضرورت تھی کیونکہ پال کو ایک ٹائپ رائٹر تک رسائی حاصل تھی تاکہ وہ اُس پر دستاویزات بنا کر اسے بطور پوسٹ بھیج سکے۔ پال واقعتا 100 فیصد اس منصوبے کے خلاف تھا لیکن جان نے کہا “اس کی فکر نہ کرو میں اسے راضی کروں گا اور ایسا ہی ہوا، پال راضی ہوگیا۔

چھوٹے سوٹ کیس میں برائن نے اپنے ساتھ تکیہ ، لائٹ ، ایک کتاب اور دو بوتلیں رکھیں، ایک پانی کے لئے اور دوسری پیشاب کے لئے۔

برائن جو اب 75 سال کے ہیں کسی پرتعیش سفر کی توقع نہیں کر رہے تھے لیکن 36 گھنٹے کی براہ راست پرواز چار دن طویل آزمائش کے ساتھ ہی ختم ہونے والی بات تھی۔ برائن کا کہنا ہے کہ ہوائی جہاز میں سردی اور گرمی دونوں تھی اور اس نے سفر کے دوران سانس لینے کے لئے جدوجہد بھی کی تھی۔ جب طیارہ سڈنی میں اترا تو اسے 22 گھنٹوں کے لئے چھوڑ دیا گیا جس کی وجہ سے وہ بیہوش ہوگئے۔

جب برائن نے سوچا کہ آخر وہ لندن میں ہے تو اس نے سوٹ کیس کے سوراخ سے جھانکا لیکن خوف سے اُسے گھیر لیا کیونکہ کسٹم آفیسر اُس ڈبے کی جانچ کرنے کیلئے آرہے تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اندر کوئی لاش ہے۔ تاہم جب سیکورٹی والوں نے ڈبہ کھولا تو اندر ایک نوجوان کو زندہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔

ایف بی آئی نے تفتیش کی۔ جو یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ آیا وہ کسی ملک کا جاسوس تو نہیں۔ جب وہ مطمئن ہوگئے کہ وہ خطرہ نہیں ہے تو حکام نے فیصلہ کیا کہ کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا جائے۔ انہوں نے اُسے واپس لندن روانہ کردیا۔