رمضان کی آمد اور مہنگائی کا طوفان

619

اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری زندگیوں میں ایک بار پھر رحمتوں اور برکتوں کا وہ مہینہ جو تمام مہینوں کا سردار ہے سایہ فگن ہونے کو ہے۔ رمضان جو نیکیوں کا موسم بہار ہے اور ایک نیکی کے عوض اللہ پاک اس کا اجر ستر گنا بڑھا کر دیتا ہے۔ رمضان قرآن کا مہینہ ہے اور اس عظیم الشان کتاب کا نزول ہوا جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کیا۔ اس ماہ مبارک مہینے کی 27ویں شب کو مدینے کے بعد دوسری اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ پاکستان جو ماہ رمضان المبارک میں اسلام کے نام وجود میں آیا اور قرآن وسنت کے عملی نظام کے نفاذ کا اللہ سے عہد کیا گیا تھا۔ لیکن شومیٔ قسمت 73 سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم نے اس عہد کی پاسداری نہیں کی۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ذخیرہ اندوز متحرک ہوجاتے ہیں۔ ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روز مرہ کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ حکومت نے رمضان سے دو ماہ قبل ہی تیل گھی کی قیمتوں میں فی کلو 20 روپے کا اضافہ کرکے غریبوں پر مہنگائی کے نشتر برسا دیے۔ ملک میں اس وقت چینی اور گندم مافیا بھی متحرک ہے اور ملک میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ حکومت ایسے میں رمضان پیکیج کا اعلان کر کے یوٹیلیٹی اسٹور ز میں چند اشیاء پر سبسڈی دے کر بڑا کارنامہ اور غریب عوام پر احسان عظیم سرانجام دے گی۔ جبکہ وہ دو ماہ قبل ہی گھی، تیل اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ کر چکی ہے۔
دوسری جانب پڑوسی ملک بھارت جو غیر مسلم ہے۔ وہاں ہر سال ماہ رمضان المبارک میں مسلمانوں کے لیے اشیاء صرف کی قیمتیں نصف کردی جاتی ہیں اور ان پر باقاعدہ لیبل لکھا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے۔ اس کے علاوہ یورپ ودیگر ممالک میںبھی رمضان المبارک کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ریلیف دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نے اقتدار میں آتے ہی ریاست مدینہ جیسا نظام قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ریاست مدینہ کے دعویدار عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئے ہیں۔ وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھنے والے ہی پاکستان میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے ذمے دار ہیں۔ وزیر اعظم کے اقتدار کے وقت ڈالر 108روپے کا تھا اور آج یہ ڈالر 153 روپے کا ہوگیا ہے۔ حکومت عوام کو دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈی ختم کرنا چاہتی ہے۔ ڈالر کی قدربڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ چینی مافیا نے رمضان المبارک میں چینی کی قیمت 140 روپے اور سٹے کے ذریعے چینی کی قیمت ناقابل حد تک بڑھائے جانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس سلسلے میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے 40بڑے چینی ڈیلرز کے اکائونٹس سمیت 424اکائونٹس منجمد کردیے ہیں اور ان 424 اکائونٹس میں مجموعی طور پر 70ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ مل گیا ہے اور ایف آئی اے نے چینی سٹہ بازوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کے دوست جہانگیر ترین کے کاروباری اور خاندانی اکائونٹس کے فرانزک آڈٹ کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
اے ٹی ایف شوگرملز، مینگو فارم، اے ٹی شوگر ملز جے ڈی ڈبلیو اور جہانگیر ترین کے بیٹوں کے اکائونٹس بھی شامل تفتیش کیے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں چینی سٹہ بازوں کے واٹس اپ گروپوں سے مزید 392بے نامی اکائونٹس کی تفصیلات بھی سامنے آگئی ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ واحتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ حکومت کے لیے کوئی بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق ہی ہوگی۔ آٹھ دس لوگوں
کے ہاتھوں پوری قوم یرغمال بنی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو سبسڈی لینی ہو تو ایکس مل پرائس راتوں رات طے کر لی جاتی ہیں اور عوام کو چینی کتنے میں بیچنی ہے اس کی راہ میں رکائوٹ ڈالی جاتی ہے۔ رمضان کے لیے چینی کی فروری، مارچ کی قیمت سے 20سے 25فی صد اضافہ کیا جارہا تھا۔ حکومت کی کوشش ہے کہ رمضان میں قیمتوں پر قابو میں رکھا جائے۔ لیکن جو صورتحال نظر آرہی ہے اس سے واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں مہنگائی کا طوفان آنے والا ہے۔ چینی کی قیمت نے سنچری مکمل کر لی ہے اور اب گھی، دودھ، آٹا، آلو، ٹماٹر مہنگے داموں فروخت ہوںگے اور بیش تر اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت مکمل طور پر عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہوگئی ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے مافیاز کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے۔
عمران خان جب اقتدار میں آئے تو اس وقت چینی 52 روپے فروخت ہورہی تھی اور اب یہ چینی 120روپے تک فروخت کی جارہی ہے۔ آٹا 32روپے کلو تھا اور اب 80روپے، کھانے کا تیل 142روپے تھا اور آج تیل 290روپے، انڈے 84روپے درجن اور اس وقت 170روپے فی درجن اور بجلی کی قیمت 11روپے فی یونٹ تھی اب 24روپے فی یونٹ فروخت کی جا رہی ہے۔ جون میں وفاقی بجٹ آنا ہے لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ رمضان سے قبل حکومت منی بجٹ پیش کر کے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کرنا چاہتی ہے۔ ملک میں گردشی قرضے 2300ارب روپے کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔ مہنگائی کی شرح 9فی صد بڑھنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کے لاکھ دعووں کے باوجود طاقت ور مافیا کا احتساب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان ہی کے دور میں آٹے، چینی، کا بحران آیا اور چینی مافیا، گندم مافیا، آئل مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عملی طور پر نظر نہیں آئی اور اب تازہ امتحان براڈشیٹ اسکینڈل کا ہے، کمیشن نے رپورٹ پیش کر دی ہے لیکن اس کے ذمے داروں کو بھی سزا ملتی نظر نہیں آرہی۔ عمران خان جیسا بے بس وزیراعظم پاکستانی قوم نے آج تک نہیں دیکھا ہے۔
رمضان المبارک کے مہینے میں اللہ تعالیٰ شیطان کو قید کر دیتے ہیں لیکن شیطان کے چیلے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ کسی کو کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔ علماء کرام بڑے زور وشور کے ساتھ اس بات کی نوید اور خوشخبری سناتے ہیں کہ رمضان المبارک میں ایک اجر کا ثواب 70گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ لیکن انہیں یہ بھی چاہیے کہ وہ عوام کو یہ بات بھی بتائیں کہ رمضان میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ کا بھی 70گنا بڑھ کر گناہ ملتا ہے اور منافع خوروں انجام جہنم ہوگا۔ رمضان کی برکات کو سمیٹنے کے لیے ہم سب نے غلط راستہ اختیار کیا ہوا ہے اور لوگ رمضان ن کو سیزن کا نام دے کر لوٹ مار کا بازار قائم کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں 200 ارب روپے سے زائدکی خرید وفروخت ہوتی ہے اور عید کی خریداری پر بھی اتنا ہی خرچ اور خریدو فروخت ہوتی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اور غربت نے غریبوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے دوسری جانب معاشرے کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جس نے دولت کے انبار پر عیاشیاں لگائی ہوئی ہیں اور اسراف اور فضولیات کے ذریعے اپنی دولت کی نمائش کی جاتی ہے۔ رمضان کا بابرکت مہینہ رب سے قربت اور اپنے گناہوں کی تلافی کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک مہینے میں اس کی ساعتوں، برکتوں اور رحمتوں کو زیادہ سے زیادہ سمیٹا جائے اور اللہ سے رحم اور مدد طلب کی جائے اللہ پاک اپنا رحم اور کرم اس وقت ہی نازل فرماتا ہے جب ہم اس کے بندوں کے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے۔