ہم نے دریا سے عجب جبر کارشتہ رکھا

640

میں: تم نے ایک نشست میں انسان پر قدرت کے جبر کے حوالے سے بات کی تھی، تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ قدرت کے بجائے انسان خود اپنے آپ پر جبرکرتا رہا ہے؟
وہ: میں تمہاری بات سے متفق ہوں، قرآن کی ایک آیت بھی اسی موضوع کا احاطہ کرتی ہے، جس کا مفہوم ہے کہ انسان پر آنے والی ہر مصیبت اس کی اپنی شامت ِ اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اصل میں یہ معاملہ براہ راست ادراکِ ذات سے جڑا ہوا ہے۔ انسان کے لیے یہ جاننا بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا مقام اور حیثیت کیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ یہ فہم بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے کون سا کام بطریق احسن سرانجام دے سکتا ہے۔
میں: یعنی اگر انسان کو اپنی پہچان ہوجائے تو کیا پھر اس کے اس خود ساختہ جبر میں کمی آسکتی ہے؟
وہ: اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اس بنیادی نکتے کو سمجھے کہ وہ اس دنیا کی واحد مخلوق ہے جسے عقل وفہم اور مختلف اختیارات دے کر پیدا کیا گیا ہے۔ اور دوسری بنیادی بات یہ کہ اسے پیدا کیا گیا ہے، وہ خود سے پیدا نہیں ہوا ہے۔ اور یہی سوچ خود پر جبر کا نقطہ ٔ آغاز ہے کہ اس کی پیدائش محض ایک واقعہ ہے خدا کی تخلیق نہیں۔ اگر غور کرو تو انسان کے خود پر اس جبر کی داستان بہت طویل ہے اور اس کا سرا آدم ؑ کے بعد سے دنیا میں آنے والے ہر دور کے انسان سے جڑا ہوا ہے۔
میں: توکیا انسان کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ قدرتی آفات نہ سہی مگر خود اپنی ذات کو اپنے ہاتھوں جبر سے تو بچالے؟
وہ: یہی بات تو سمجھانا چاہ رہا ہوں کہ انسان کے پاس اس زندگی، کائنات اور خود اپنی ذات کے ادراک کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اس بنیادی بات کو اپنا ایمان بنالے کہ وہ خدا کی بنائی تمام مخلوقات میں سب سے عظیم شاہکار ہے، اور اس کے باوجود وہ صرف اور صرف اس کا بندہ ہے۔ اور اس کی فلاح وکامیابی صرف اسی ایک صورت میں ممکن ہے کہ وہ اپنے خالق کے بتائے ہوئے طریقوں اور اس کے بھیجے گئے پیغمبروں کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارے دے۔ تم تاریخ کا کوئی بھی ورق پڑھ کے دیکھ لو کسی بھی دور کا مطالعہ کرلو جب جب انسان نے ربّ کی ہدایت کے مقابلے میں اپنے علم وطاقت کو اپنی رہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے ہر بار ناکامی اور گمراہی اس کا مقدر ٹھیری ہے اور انسان محض انفرادی سطح پر ہی نہیں بلکہ معاشرے بھی اجتماعی جبر کا شکار رہے ہیں۔
میں: لیکن آج تو انسان اپنی عقل وفہم کی بنیاد پر ہر گزرتے دن کے ساتھ کامیابیوں کی منازل طے کرتا جارہا ہے؟ مسلسل آگے کی جانب گامزن ہے، معاشرتی طور زیادہ ترقی یافتہ اور سمجھدار ہوگیا ہے، مجھے تو اس حوالے سے کسی انسان یا معاشرے پر کوئی جبر نظر نہیں آتا۔
وہ: لیکن تمام کامیابیوں اور معاشرتی ترقی کے باوجود جبرو استبداد کے جس دور میں ہم آج گزر رہے ہیں شاید ہی تاریخ میں کوئی ایسا دور گزرا ہو۔ انسانوں اور معاشروں کا استحصال اس دور کا سب سے بڑا جبر ہے۔ جس کی بنیادی وجہ سرمایہ دارنہ نظام ہے، جس کی وجہ سے دنیا کی نوے فی صد سے زائد دولت پر دنیا کے پانچ سو خاندانوں کا قبضہ ہے اور دنیا کی دو سو ملٹی نیشنل کمپنیاں دولت کی اس محدود اور غیرمنصفانہ تقسیم میں عالمی سطح پر پوری ایمان داری سے دلالی کررہی ہیں۔ اس ناانصافی اور ظلم کے نتیجے میں دنیا واضح طور پر محروم اور مراعات یافتہ افراد کے دو طبقات میں تقسیم ہوچکی ہے اور محروم سوائے اس کے کچھ اور سوچ ہی نہیں رہا کہ مجھے یہ مراعات اور سہولتیں کیسے ملیں گی اور یوں اس کی ساری تگ و دو اسی مقصد کے حصول میں لگ جاتی ہے۔ اور یہی آج کے انسان پر دوسرا بڑا جبر ہے کہ اس نے پیسے کو اپنا خدا بنالیا ہے اور نتیجتاً دنیا میں معاشرے اجتماعی طور پر بے دینی کی طرف بڑھ رہے ہیں اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا مذہب لادینیت ہے یعنی وہ افراد بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں جو کسی مذہب کو نہیں مانتے یعنی ان کی زندگیاں خدا کے تصور اور اس پر ایمان سے خالی ہیں۔ ذرا سوچو انسان پر اس سے بڑا جبر اور کیا ہوگا کہ وہ اپنے مالک وخالق ہی سے ناآشنا ہے۔
میں: تمہاری بات سے میں متفق ہوں لیکن کیا ہم مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر خود پر جبر نہیں کررہے؟
وہ: تمہارا تجزیہ بھی غلط نہیں۔ اس حوالے سے ایک اہم بات اچھی طرح سمجھ لوکہ اس دنیا میں روز ِ اول سے جتنے بھی نبی اور پیغمبر، خدا کا پیغام لیکر آئے اس کا بنیادی نکتہ بندے کو اس کے ربّ سے ملانا ہے، انسان کا کسی واسطے کے بغیر خدا سے براہِ راست تعلق جوڑنا ہے۔ اگر میں نماز کو اپنے ربّ سے روزانہ کئی بار ملاقات اور اس سے باتوں کا ذریعہ نہیں سمجھتا اور صرف چند ظاہری حرکات اور زبانی آیات کی گردان تک محدود رکھتا ہوں تو میں خود پر جبر کر رہا ہوں۔ اگر میں اسلام کو محض اس کے بنیادی ارکان کی ادائیگی تک محدود کرکے خود کو معاشرے کی دیگر تمام ذمے داریوں سے بری سمجھ لیتا ہوں اور اللہ کے دین کو نظام حیات نہیں سمجھتا تو میں خود پر جبر کررہا ہوں۔ معذرت کے ساتھ اصل میں ہم نے اپنے دین کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ روارکھا ہوا ہے۔ ؎
خود کو سیراب کیا اور نہ ہی پیاسا رکھا
ہم نے دریا سے عجب جبر کا رشتہ رکھا
میں جو چاہے پہنوں، جیسے چاہے رہوں، اسی لیے تربیت کا عنصر تعلیم اداروں سے بھی ختم ہوگیا ہے۔ اسی کے اثرات دنیا میں ہرجگہ ہر شعبے میں نظر آرہے ہیں۔