چین سے مقابلہ‘ افغانستان سے انخلاناکام پالیسیوں نے امریکا کو پھنسا دیا

369

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے تجربہ کارسفارت کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بڑی طاقتوں خاص کرچین سے مسابقت میں اضافہ کرکے امریکی خارجہ پالیسی کوتبدیل کردیا ہے۔ ٹرمپ کے سابق قومی سلامتی کے مشیرایچ آر مک ماسٹر کے مطابق چین سے مسابقت میں اضافہ سردجنگ کے بعدامریکی خارجہ پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ جیوپولیٹکس کے حوالے سے کھیل، کاروبار اور طرزِ زندگی میں مقابلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ واشنگٹن کوچین کوقابو کرنے کے لیے بہتراندازمیں مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ طریقہ کارحقیقت پسندانہ اورقابل عمل ہوناچاہیے۔ بدقسمتی سے امریکاان معیارات پر پورانہیں اترتا۔ امریکاکی تین بڑی اسٹریٹیجک غلطیوں نے اس کی مسابقتی حیثیت کو کمزور کیا۔ ایشیا میں کامیابی کے لیے نو منتخب صدر جوبائیڈن کوایسی انتظامیہ کی ضرورت ہے جوباتیں کم اورکام زیادہ کرے،تصورات کی دنیاسے دُورہواوراپنی اصل طاقت کافائدہ اٹھانے کے بجائے سیاسی دانش سے کام لے۔ چین کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ایشیامیں بھارت جیسے گھوڑے پرہاتھ رکھ کردوڑ شروع ہونے سے قبل ہی گھوڑامنہ کے بل گرگیاہے جبکہ چین توخطے میں ایشیائی ریاستوں کو ساتھ لے کر آگے بڑھ رہاہے اورخطے میں چین کے تمام پڑوسی اس بات سے واقف ہیں کہ چین واحدملک ہے جوایشیاکے شمال مشرق،جنوب مشرقی،جنوب اوروسطی علاقے میں جغرافیائی طورپرپھیلاہواہے اورچین کی اس جغرافیائی برتری کاامریکاکے پاس کوئی توڑنہیں ہے کیونکہ بیجنگ پاکستان سے مغربی چین تک شاہراہ تعمیر کرسکتا ہے لیکن واشنگٹن قزاقستان سے کیلیفورنیاتک پل نہیں بنا سکتا۔ اسی لیے جب امریکاچین کے انفرااسٹرکچرمنصوبوں کی مخالفت کرتاہے تواس کابہترمتبادل دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ واشنگٹن کواپنی صلاحیت کے مطابق چین سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جن میں سرمائے تک رسائی،بہترین کمپنیاں،دنیاکوشکست دینے والی ٹیکنالوجی اورعالمی سطح پرتجارتی سامان کی نقل وحمل کانظام شامل ہے، لیکن بدقسمتی سے امریکاتجارتی طورپر یوریشین خطے کے دو تہائی میں کہیں نظرہی نہیں آتا ہے۔ امریکی کمپنیاں اور سرمایہ وہاں موجودہی نہیں ہے۔ امریکا وسطی ایشیا، جنوبی ایشیااورجنوب مشرقی ایشیاکے ممالک میں اپنی محدودموجودگی کوبڑھانے کی کوشش کررہاہے۔
درحقیقت چین ایشیاکے بڑے حصے پر تاجر، بلڈراورقرض فراہم کرنے والے کے طورپرموجودہے لیکن پھربھی امریکاایشیائی شراکت داروں کواپنی سرحدکادفاع کرنے اورسستے سامان کی فراہمی کی یقین دہانی کرواکے معاشی خرابی کامقابلہ کرنے پراکسا رہا ہے۔ گزشتہ برس سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو وسط ایشیا،جنوبی ایشیااورجنوب مشرقی ایشیاکادورہ کرکے امریکی اقدامات کو بڑھاوادینے میں توناکام رہے کیونکہ یہ دورہ صرف چین کامقابلہ کرنے کے لیے تھا۔اس کوشش کانتیجہ ان ممالک کے متضادبیانات کی شکل میں الٹانکلا۔اصل میں پومپیو اور ٹرمپ انتظامیہ نے سابق نائب سیکرٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج سے منسوب قول الٹاکردیاتھا کہ ا یشیاکوٹھیک رکھنے کے لیے چین کے ساتھ ٹھیک رہاجائے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایشیائی حکومتوں کوپیغام دیاکہ امریکاکی خطے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں بلکہ وہ صرف بیجنگ سے اسٹریٹجک مقابلے کے لیے ان ممالک کوپراکسی کے طورپراستعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کوئی تعجب نہیں کہ واشنگٹن کی حیثیت خطے میں کمزورہورہی ہے۔ یہ روّیہ بظاہرتوکامیاب ہے لیکن علاقائی حکمت عملی کے طورپرناکام رہے گا۔دوسری غلطی چین کے ساتھ اسٹریٹیجک مقابلے کوصرف سیکورٹی چیلنج کے طور پر لینا ہے، حالانکہ یہ مسئلہ معاشی بھی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مشرقی ایشیائی معیشتیں تیزی کے ساتھ اپنی مانگ کوبڑھارہی ہیں،جبکہ امریکااورایشیاکے درمیان تجارت کم ہوتی جارہی ہے۔اس میں بہتری کے لیے امریکاکوایشیامیں اپنے دیرینہ کردارکوبڑھاناچاہیے تھا لیکن ٹرمپ ٹرانس پیسیفک معاہدے سے دستبردار ہوگئے، جسے اب جامع اورترقی پسندٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کہا جاتا ہے۔ امریکا ان دونوں معاہدوں سے دستبردارہوچکاہے۔ ان معاہدوں نے ایشیامیں تجارت اورسرمایہ کاری کے معیارات طے کردیے تھے۔ ایشیامیں صرف سیکورٹی کردارکوبڑھانے سے واشنگٹن کو فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ وہ ایک ایسی فوجی طاقت ہوگی جس پربیجنگ کے سوا سب انحصارکرتے ہیں لیکن معاشی شراکت داری کے لیے انحصارنہیں کیاجاسکتاہے۔
اب امریکاکی مجرمانہ غلطی کاذکرہوجائے جو یقینا ایشیا سے امریکی رخصتی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ ایک ایسے وقت میں اس خبرسے طالبان اورافغان حکومت کے درمیان امن معاہدہ خطرے میں پڑگیاہے کہ امریکا2020ء میں طالبان سے کیے گئے وعدے پرنظرثانی کررہاہے،جس کے تحت امریکی اوردیگراتحادی افواج کواس سال مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔ طالبان نے امریکی صدرجوبائیڈن انتظامیہ کومتنبہ کیاہے کہ اگروہ گزشتہ سال29فروری کوطے پانے والے امن معاہدے سے پیچھے ہٹے،تو اس سے افغان جنگ میں خطرناک تیزی آئے گی۔
طالبان دھمکی سے دوروزقبل،امریکامیں کانگریس کے دوجماعتی پینل نے اپنی سفارش میں صدربائیڈن سے کہاتھاکہ وہ یکم مئی کوافغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاکے معاہدے میں توسیع کریں۔ ــ’’دی افغانستان سٹڈی گروپ‘‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ انتظامیہ امریکی افواج کے انخلاکوسختی کے ساتھ طالبان کی جانب سے لژے جانے والے تشددمیں کمی اوربین الافغان مذاکرات میں پیش رفت سے منسلک کرے۔ سٹڈی گروپ نے خبردار کیا کہ ’’مئی کی مقررہ تاریخ تک تمام امریکی اورنیٹو افواج کے انخلاکے بعدافغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے،جس سے خطہ عدم توازن کاشکاراورالقاعدہ بحال ہوسکتی ہے۔
سٹڈی گروپ کی رپورٹ کے جواب میں،طالبان کی ویب سائٹ پرچھپنے والے ایک تبصرے میں طالبان نے ان الزامات کومسترد کردیاہے کہ وہ معاہدے میں طے کی گئی شرائط پوری نہیں کررہے تاہم طالبان نے متنبہ کیاکہ دوحہ امن معاہدے سے پیچھے ہٹنے پرہونے والی بڑی جنگ کی تمام ذمے داری امریکاپرہوگی۔طالبان نے نئی امریکی انتظامیہ کومشورہ دیاہے کہ وہ معاہدے کوجذباتی اندازسے نہ دیکھیں،اوراس کے بجائے افغان جنگ میں مزیدسرمایہ کاری ختم کریں۔ طالبان کے تبصرے میں یہ بھی کہاکہ سب کو کسی بھی قسم کے اشتعال انگیزاقدامات اوربیان بازی سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے سب پہلے جیسی حالتِ جنگ میں واپس چلے جائیں گے،جونہ توامریکااورنہ ہی افغان عوام کے مفادمیں ہے۔
امریکااورطالبان کے درمیان امن سمجھوتا ہونے کے بعد، امریکی افواج کی تعداد13ہزارسے کم ہوکرڈھائی ہزارہوگئی ہے۔ اس کے بدلے طالبان نے اپنی کاروائیاں ختم کرنے کی یقین دہانیاں کرائی تھیں اوریہ وعدہ کیاتھاکہ وہ کسی ثالث کے بغیرافغان حکومت کے ساتھ مل کرکوئی مذاکراتی حل تلاش کریں گے، تاکہ اس طویل جنگ کاخاتمہ ہوسکے۔تاہم بائیڈن انتظامیہ نے فیصلہ کیاہے کہ وہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے طے پانے والے امن معاہدے پرنظرثانی کرے گی تاکہ تعین کیاجاسکے کہ کیاطالبان معاہدے میں طے کی گئی شراط کوپوراکررہے یانہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مقررکردہ افغانستان کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادکواپنی ذمے داریاں جاری رکھنے کے لیے کہاہے۔امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے خلیل زاد سے ملاقات میں افغان امن عمل پربات چیت کرکے موجودہ صورتحال اورامن معاہدہ کاازسرنوجائزہ لینے کی کوششوں کاعمل تیز کرنے کاعندیہ دیاہے۔
ادھرافغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے چاراہلکاروں نے خبر رساں ادارے’’رائٹرز‘‘کوبتایاکہ نیٹوافواج امریکااورطالبان کے امن معاہدے میں افواج کے انخلاکی مئی کی ڈیڈ لائن کے بعدبھی ملک میں رہیں گی۔ رپورٹ کے مطابق ان اطلاعات نے امریکا اور طالبان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کردیاہے۔رپورٹ کے مطابق ایک نیٹواہلکارنے نام خفیہ رکھتے ہوئے بتایاکہ اپریل کے آخر تک اتحادی فوجوں کاانخلامکمل نہیں ہوگا کیونکہ معاہدے کی شرائط پوری نہیں ہوئیں۔ ’’امریکا میں اب ایک نئی انتظامیہ ہے اور پالیسی میں ردوبدل ہوگاجبکہ کسی بھی جلدبازی کے بجائے معروضی حالات کودیکھ کرہی فوج کاانخلاہوگا۔‘‘
امریکااورطالبان نے گزشتہ سال29فروری کومذاکرات کے کئی ادوارکے بعدامن معاہدے پراتفاق کیاتھااورمعاہدے کے مطابق امریکا نے افغان جیلوں میں قیدطالبان مجاہدین کی رہائی سمیت مئی2021ء تک افغانستان سے امریکی اوراتحادی فوج کے مکمل انخلاپر اتفاق کیا تھا۔ طالبان نے امریکاکویہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکایااس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگرگروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے۔ افغانستان میں اس وقت امریکی فوجوں کی تعداد گھٹ کر2500تک رہ گئی ہے۔نیٹوکے ترجمان کاکہناہے ضرورت کے تحت افغانستان میں فوج رکھی جائے گی۔ تاہم یہ واضح ہے کہ نیٹوافواج کی موجودگی مشروط ہوگی۔ نیٹو اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اپریل کے بعدکیاپالیسی ہوگی اس پرمئی میں نیٹواجلاس میں غورہوگا۔ نیٹوکے مطابق اس وقت افغانستان میں امریکاسمیت 10 ہزار فوجیں تعینات ہیں اور مئی کے بعدبھی یہ تعدادبر قراررہے گی لیکن ابھی اس کے بعدکامنصوبہ واضح نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے نیٹواتحادکواعتمادمیں لیے بغیرکئی فیصلے کیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے امن معاہدے پرنظرِثانی کااعلان کیاہے، تاہم طالبان پریہ الزام لگ رہاہے کہ وہ امن معاہدے کی شرائط پوری نہیں کر رہے اورامن معاہدے کے باوجودافغانستان میں تشددکی کارروائیاں جاری ہیں جس کی وجہ سے افغان حکومت اورمغربی ممالک طالبان پرتنقیدبھی کررہے ہیں لیکن طالبان کایہ مضبوط مؤقف ہے کہ وہ امن معاہدے پرمکمل طورپرکاربند ہیں۔
کئی دہائیوں سے جنگ میں مبتلاافغانستان میں امن کاپرچم نہ جانے کب لہرائے گالیکن اس خطے کوایک مرتبہ پھرآگ و خون کے دریاکاسامناہے۔امریکااوراس کے اتحادیوں کی طرف سے امن معاہدے کی خلاف ورزی یقیناًپاکستان پرایک نئے بوجھ اورڈومور کے تازیانے کی خبرثابت ہوگی۔ خدشہ ہے کہ خاکم بدہن پاکستان ایک مرتبہ پھریکطرفہ طور پر کمزوری کااظہار کرکے غلامی کی ان زنجیروں کوقبول نہ کرلے، جن زنجیروں کوافغان قوم نے کاٹ کرپھینک رکھاہے اورآزادی جیسی حرمت پراپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیاررہنے کااعلان کر رکھا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یقیناًمودی سرکارایک مرتبہ پھرگھی کے چراغ جلاکرامریکاکواپنی ہرقسم کی خدمات پیش کرے گی۔