روس اور یوکرائن جنگ کے دہانے پر ، بڑی تباہی کا خدشہ

674
یوکرائن: صدر وولودیمیر زیلنسکی جنگ کے دہانے پر کھڑے ڈونباس نامی علاقے کا دورہ اور فوجیوں سے ملاقات کررہے ہیں

ماسکو/ کیف (انٹرنیشنل ڈیسک) روس اور یوکرائن پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ روس نے ممکنہ جنگ کی صورت میں یوکرائن کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکی دی ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ترجمان کا کہنا ہیکہ یوکرائن میں حالات خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔ حالات تبدیل نہ ہوئے روس مداخلت پر مجبور ہوگا اور جنگ ہوئی تو وہ یوکرائن کے خاتمے پر ختم ہوگی۔ روس نے بڑی تعداد میں اپنی فوج سرحد پر پہنچا دی ہے۔ ساتھ ہی روس نے خبردار کیا ہے کہ جنگ چھڑ گئی تو یوکرائن کا خاتمہ ہوگا۔ روس نے یہ دھمکی مشرقی یوکرائن میں جاری مسلح تنازع میں اپنے شہریوں کی حفاظت کے تناظر میں دی ہے۔ مشرقی یوکرائن کے علاقے ڈونیسک اور لوہانسک میں تقریباً 4 لاکھ روسی شہری ہیں۔ دوسری جانب یوکرائن پر سرحد پر اپنی فوج بڑھا رہا ہے، تاہم یوکرائنی آرمی چیف روسلان خومچاک نے یقین دلایا ہے کہ ان کی فوج کا روس نواز علاحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں۔ جب کہ یوکرائنی وزیر دفاع نے خبردار کیا ہے کہ روس کا جارحانہ رویہ علاقائی تنازع کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ یوکرائنی وزیر دفاع آندری تاران نے ہفتہ کے روز کہا کہ تنازعاتی علاقے میں روس کی موجودہ جارحانہ پالیسی کیف حکومت کو بھڑکا سکتی ہے اور یہ خطرناک نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔ آندری تاران کا اشارہ یوکرائن کے مشرقی علاقے ڈونباس کی جانب تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ مشرقی یوکرائن کا مسلح تنازع 20 فروری 2014ء کو شروع ہوا تھا اور اس میں اب تک فریقین کے ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ یوکرائنی وزیر دفاع کے مطابق روس الزام لگا رہا ہے کہ مشرقی یوکرائن میں روسی زبان بولنے والے شہریوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور یہی الزام مسلح جارحیت کا سبب بن سکتا ہے۔ آندری تاران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک طرف ماسکو روسی زبان بولنے والوں کو نظرانداز کرنے کا الزام لگا رہا ہے اور دوسری جانب مسلح کارروائی کا کوئی امکان پیدا کرنے کے لیے مجموعی صورت حال کو گمبھیر کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔ دھر ترکی کی وزارت خارجہ کے مطابق امریکا نے ترکی کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے 2 جنگی بیڑے 14 اور 15 اپریل کو بحیرہ اسود پہنچیں گے، اور 4 سے 5 مئی تک وہیں رہیں گے۔ ترک وزارتِ خارجہ کے عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایاہے کہ امریکا نے سفارتی ذرائع سے ترکی کو آگاہ کیا ہے۔ تاہم یہ صورت حال ترکی کے لیے پسندیدہ نہیں ہے، کیوں کہ اس طرح ترکی اس تنازع میں فریق بن سکتا ہے۔