اخوان المسلمون کے سربراہ کو عمر قید کی سزا

677

عالم اسلام کے اہم ملک مصر میں اسلامی تحریک اخوان المسلمون پر، جبر کی بنیاد پر قائم فوجی حکومت ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے۔ مصر کے سرکاری اخبار ’’الاحرار‘‘ کے مطابق دہشت گردی کی عدالت نے اخوان کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر محمود عزت کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ان کے خلاف یہ مقدمہ 2013ء سے درج ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اخوان کے اراکین نے فوج کی جانب سے مرحوم محمد مرسی کو ہٹائے جانے پر 9 افراد کو ہلاک اور 91 کو زخمی کیا تھا۔ 2015ء میں قاہرہ میں فوجی عدالت نے اسی مقدمے میں 4 افراد کو سزائے موت اور 14 دیگر افراد کو قید کی سزائیں سنائی تھیں۔ اگست 2020ء میں سیکورٹی حکام نے مشرقی قاہرہ میں ایک رہائشی اپارٹمنٹ سے محمود عزت کو گرفتار کیا تھا۔ عدالت نے اخوان المسلمون کے 89 رہنمائوں اور اراکین کے اثاثے ضبط کرنے اور ان کی دولت قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ مصر میں اخوان اور اسلام کے خلاف ظلم کی اس نئی تاریخ کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2013ء میں جنرل السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے قاہرہ کے ناصریہ ضلع میں مظاہرہ کرنے والے سابق صدر مرسی کے حامیوں اور سیکڑوں اخوان ارکان کو شہید کردیا تھا۔ خونریزی کا یہ واقعہ رابعہ مسجد کے پاس ہوا تھا، اسی لیے یہ ’رابعہ قتلِ عام‘ کے نام سے معروف ہے۔ مصری فوج بے گناہ، معصوم اور نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کا پوری دنیا کے سامنے قتلِ عام کررہی ہے لیکن عالمی طاقتیں ٹس سے مس نہیں ہوئیں، اور ظلم و جبر کا یہ سلسلہ تاریخی طور پر جاری ہے۔ ہرکچھ عرصے بعد عدلیہ کے جج اخوان المسلمون کے ارکان کو موت اور قید کی سزائیں سناتے رہتے ہیں۔ مصر میں 1953ء سے لے کر جون2011ء تک بدقسمتی سے اقتدار فوجی جنرلوں کے ہاتھ ہی میں تھا، اور ان کی زندگیاں عیش و عشرت میں غرق تھیں، وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ مصر ایک مغرب زدہ ملک بنادیا گیا تھا۔ پھر 2011ء میں اخوان المسلمون کی کامیابی دنیا کو حیران کردینے والی تھی، اور یہ فطری بات تھی کہ امریکا اور مغرب حیران و پریشان تھے، ساتھ ساتھ عرب ممالک بھی خوف زدہ ہوگئے تھے اور اپنی بادشاہت کو خطرے میں محسوس کررہے تھے۔ کیونکہ پورے خطے کی فضا تبدیل ہورہی تھی، ’عرب بہار‘ کا عنوان گردش کررہا تھا، اس لیے ان سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اخوان المسلمون کا اقتدار جلد از جلد ختم کردیا جائے۔ فوجی بغاوت کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ بی بی سی کی خبر کے مطابق سعودی عرب نے پانچ ارب، کویت نے چار ارب اور متحدہ عرب امارات نے مصر کے لیے تین ارب ڈالر کی فوری امداد کا اعلان کردیا۔ مغرب اور امریکا کے حکمران اسرائیل اور عرب ممالک کو خوش کرنے کے لیے اس صاف فوجی بغاوت کو بغاوت کہنے کے لیے تیار نہیں تھے، اور اسلام دشمنی میں اپنے اور غیر، سب ایک صف میں تھے اور ہیں۔ مغرب پوری دنیا کو آزادی اور جمہوریت کا لیکچر دیتا ہے، لیکن مسلم ممالک میں فوجی آمروں، جابر بادشاہوں اور ضمیر فروش بدعنوان لوگوں کی سرپرستی کرتا ہے۔ یہ دہرا معیار مغرب کے تضاد اور جھوٹ کی سب سے بڑی علامت ہے۔ پوری دنیا میں بڑی تعداد میں مسلمان اور مسلم ممالک ہونے کے باوجود حکمرانوں کی حمیت مرجانے کی وجہ سے مسلمانوںکو چن چن کر قتل کیا جارہا ہے، انہیں قیدکیا جارہا ہے۔ جہاں تک معاملہ اخوان کا ہے تو 1949ء سے لے کر آج 2021ء تک ان پر مظالم اور پابندیوں کی المناک تاریخ ہے، اور اس پر اُن کا صبر اور استقامت انمول ہے۔ یہ غیبی مدد نہیں تو اور کیا ہے کہ بدترین مخالفت، تعذیب، پروپیگنڈے اور عسکری و سیاسی دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بننے کے باوجود یہ تحریک نہ صرف زندہ ہے بلکہ دعوت، تربیت، خدمت سمیت ہر میدان میں نئی بلندیوں کی طرف سفر کررہی ہے، اور امت کے دل و دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ اخوان المسلمون کے سربراہ ڈاکٹر محمود عزت کو قید کی سزا ایک شرمناک عمل اور عالمِ اسلام کا المیہ ہے، اور ظلم وجبر کے اس عمل پر دنیا کی بے حسی اور خاموشی قابلِ مذمت ہے، اس پر پوری دنیا کے مسلمانوں اور خاص طور پر اسلامی تحریکوں کو بھرپور احتجاج کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ تاریخ کا سبق ہے کہ مزاحمت میں زندگی ہے اور خاموشی موت ہے۔