ایچ ای سی کا دوسرا ترمیمی آرڈیننس 2021

578

تعلیم کے ساتھ مذاق اور غیر سنجیدگی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوگی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سے متعلق چند ہی روز میں صدرِ مملکت کے دستخط سے ’’ایچ ای سی دوسرا ترمیمی آرڈیننس2021‘‘ جاری کر دیا گیا۔ نظرثانی شدہ صدارتی آرڈیننس کا اطلاق 26 مارچ سے ہوگا۔ نئے صدارتی آرڈیننس میں مارچ میں جاری کیے گئے آرڈیننس کی بعض شقوں میں ترمیم کی گئی ہے۔ دیگر ترامیم کے ساتھ اہم بات یہ ہے کہ کمیشن میں نجی ارکان کی تعداد 2 سے بڑھا کر 5 کردی گئی ہے، وفاقی وزارت ِ تعلیم سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے۔ اب ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار کمیشن کو حاصل ہوگا۔ اس سے قبل مارچ کے آخری ہفتے میں ایچ ای سی سے متعلق آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس میں چیئرمین ایچ ای سی کی مدت ملازمت کم کرکے 2 سال کردی گئی تھی۔ ماہرین کے مطابق یہ بل بنیادی طور پر اعلیٰ تعلیم میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حاصل اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر جو 2002 کے آرڈیننس کے مطابق کمیشن کو تعینات کرنا تھا وہ اب وزارت ِ تعلیم تعینات کرے گی جس کی مدت چار سال ہوگی، اور وہ بہت سے اختیارات کا حامل ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ چیئرمین بے وقعت ہوجائے گا اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر زیادہ بااختیار ہوگا۔ پھر اس آرڈیننس میں یہ بھی ہے کہ اس منصب پر تقرر کے لیے کسی تعلیمی شخصیت کا ہونا ضروری نہیں، یعنی کسی بھی من پسند فرد کو تعینات کیا جاسکتا ہے۔ اس آرڈیننس کے بعد اب اعلیٰ تعلیم کا شعبہ براہِ راست وزارت ِ تعلیم کے حوالے ہوجائے گا، اس طرح ہائر ایجوکیشن کمیشن کی خودمختاری مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ حکومتی اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ مقصد پبلک جامعات کو ایک منصوبے کے تحت ناکام بنانا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات کو خودمختار بنانے کی پالیسی بنائی جائے اور تعلیمی اداروں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل وائس چانسلرز، اساتذہ اور طلبہ نمائندوں کی رائے لی جانی چاہیے۔