سنتے جاؤ اور کانوں کو خوش کیے جاؤ

564

ایک باد شاہ کے دربار تک ملک کا غریب مگر بہت نامور مغنی رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ نام تو باد شاہ نے بھی سنا ہوا تھا لہٰذا جب مغنی نے کچھ سنانے کی خواہش کا اظہار کیا تو بادشاہ نے درخواست قبول کرتے ہوئے اسے اجازت عطا کردی۔ مغنی نے دربار میں اپنی آواز کا ایسا جادو جگایا کہ بادشاہ سمیت سارے درباری جھوم جھوم اُٹھے۔ بادشاہ نے مغنی کے لیے کچھ تحفے دینے کے اعلان کے ساتھ ہی مزید سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بادشاہ فرمائش کرتا گیا اور مغنی جھوم جھوم کر سناتا گیا۔ ہر نغمے پر باد شاہ تحفے دینے کا اعلان بھی کرتا رہا۔ محفل ختم ہوئی تو مغنی کا خوشی کے مارے وہ حال تھا کہ پاؤں زمین پر ٹک کر نہیں دے رہے تھے۔ خوشی خوشی گھر پہنچا تو اپنے بیوی بچوں کو سانس لیے بغیر ساری تفصیل سے آگاہ کر دیا۔ بیوی بچے بہت خوش ہوئے۔ مغنی ہر روز بادشاہ کے اعلان کردہ تحفوں کا انتظار کیا کرتا لیکن اسے مایوسی کا سامنا ہی رہتا۔ بیوی بچے بھی پریشان ہوتے کہ بادشاہ نے اب تک اعلان کیے گئے انعامات کیوں نہیں بھجوائے۔ کافی دن گزر گئے تو مغنی نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جاکر معلوم کرے کہ اس کے انعامات کا کیا ہوا۔ چنانچہ وہ ایک مرتبہ پھر بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے باد شاہ کے محل تک جا پہنچا۔ خوش قسمتی سے مغنی کو حاضری کی اجازت بھی مل گئی۔ مغنی سرجھا کر دربار میں بیٹھا گیا تو بادشاہ نے دریافت کیا کہ کہو کیسے آنا ہوا۔ کہنے لگا کہ کچھ دنوں پہلے میں نے آپ کو کچھ نغمے سنائے تھے جو آپ نے بہت پسند فرمائے تھے اور ہر نغمہ سننے کے بعد آپ میرے لیے انعامات کا اعلان بھی کرتے رہے تھے۔ حضور کافی دن ہو گئے ہیں لیکن میں اور میرے بچے ابھی تک انعامات کا انتظار کر رہے ہیں۔ بادشاہ اس کی بات سن کر بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا کہ کیسے انعامات، بھئی تم نغمے سنا سنا کر میرے کانوں کو خوش کرتے رہے اور میں انعامات پر انعامات کا اعلان کر کرکے تمہارے کانوں کو خوش کرتا رہا۔
کراچی ایک ایسا بد قسمت شہر ہے جس پر اپنا ہونے کا دعویٰ تو پورا پاکستان کرتا ہے لیکن اس کو اس کا حق دینے کے لیے کوئی تیار نہیں۔ جب کراچی سے کچھ لینا ہوتا ہے تو یہ سب کا ہوجاتا ہے اور جب دینا ہوتا ہے تو یہ پاکستان سے الگ کوئی اور ملک بن جاتا ہے۔ اس کی تعلیم گاہوں اور کاروباری مراکز میں پورے پاکستان کے طالب علموں کا کوٹا اور کارخانوں میں ملازمت کرنے کی بندر بانٹ پر سب حق رکھتے ہیں لیکن کراچی کے طالب علموں یا مزدوروں کا پاکستان بھر میں کوئی کوٹا مقرر نہیں۔ یہاں کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے والوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے پورے پاکستان کے لیے کھلے ہوئے ہی نہیں بلکہ ٹوٹے ہوئے ہیں لیکن وہ فارغ التحصیل طالب علم جن کا اوڑھنا بچھونا کراچی ہے، اس کے لیے ہر قسم کی موقعوں کے در اسٹیٹ بینک میں نصب بڑے بڑے ’’سیفوں‘‘ سے بھی زیادہ مضبوط اور ایسے ہیں جن کو کھولا اور توڑا ہی نہیں جا سکتا ہو۔
گزشتہ کئی دھائیوں سے ہر وہ جماعت جو مسند اقتدار پر آکر بیٹھتی رہی ہے وہ کراچی کے لیے بڑے بڑے پیکیج کا اعلان تو کرتی رہی ہے لیکن آج تک کراچی کے نصیب نے ان پیکیجوں کو اپنی ظاہری آنکھوں سے آتے اور اعلان کردہ منصوبوں پر لگتے نہیں دیکھا۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے بھی کراچی کے اونٹ کے منہ میں بہت بڑا زیرہ دینے کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق کرا چی کی ترقی کے لیے 11 سو ارب روپے ملنے تھے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی کراچی کے باسیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن آج تک کسی کو یہ خبر نہیں ہو سکی کہ وہ 11 سو ارب روپے جو اسلام آباد سے چل کر کراچی تک آنے تھے، کون سی کچوا گاڑی کے ذریعے روانہ کیے گئے ہیں۔ ویسے لگتا ہے کہ پہلے ایسی طفل تسلی والا کام صرف کراچی ہی کے ساتھ کیا جاتا تھا لیکن اب احساس ہو رہا ہے کہ کراچی کی اس بیماری کی لپیٹ میں آہستہ آہستہ پورا پاکستان آتا جا رہا ہے اور پاکستان کا ہر صوبہ ’’طفل تسلیوں‘‘ سے بہلایا جانے لگا ہے۔ کچھ دنوں قبل پنجاب کے وزیر اعلیٰ بزدار صاحب نے پنجاب کے کئی شہروں کے لیے اربوں روپوں کے کئی بھاری پیکیجوں کا اعلان کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کافی شہروں میں اسپتال، کھیلوں کے میدان اور اعلیٰ تعلیمی ادارے تعمیر کرنی کی بھی خوش کن خبر سنائی ہے۔ ان اعلانات پر عمل کب سے شروع ہونا ہے اور منصوبوں کی تکمیل قیامت سے ایک دن قبل تک ہو جائے گی یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس اعلان اور خبر کو غلط کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔
پاکستان بھر میں یا تو کورونا کی وبا زمین سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہی ہے یا پیکیج کے پیکیج آسمانِ ایوان ہائے حکومت سے برسائے جا رہے ہیں۔ کراچی، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب میں ژالہ باری کی صورت پیکیجوں کو برسانے کے بعد اب آسمانِ ایوان ہائے حکومت کا رخ گلگت بلتستان کی جانب موڑ دیا گیا ہے اور شنید ہے کہ اس پیکیجوں بھری برسات کے بادلوں کو خود وزیر اعظم پاکستان لیکر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پورے پاکستان کے لیے جن کھربوں روپوں کے پیکیجوں کا اعلان کیا گیا ہے اگر سب کو جمع کیا جائے تو 1947 سے لیکر اب تک کے جتنے بجٹ بناکر خرچ کر دیے گئے ہیں، اعلان کردہ پیکیجوں کی رقم ان سب سے زیادہ نکلے گی۔ اتنا بہت پیسہ آئے گا کہاں سے کا جو جواب ملا وہ یہ تھا کہ لوگو، کیا بادشاہ و مغنی کی کہانی نہیں سنی۔ جواب سن کر سننے والوں کے ہونٹوں پر ایسے تالے لگے کہ باوجود کوشش، لبوں سے حیرت زدہ آواز تک نہ نکل سکی۔