موجودہ بحران اور ہماری ذمہ داری

592

ہم اخلاقی موضوعات پر جو سیریز چلا رہے تھے، اُس کے پیچھے دو چار مقاصد تھے۔ ایک بڑا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہؐ کو ماڈل بنا کر ہم اپنے سارے نظام ِ تعلق کو آپؐ کے اسوۂ حسنہ کی اساس پر چلانے میں کامیاب ہو جائیں تو ہماری سوسائٹی بھی اتنی طاقتور یقینا ہوجائے گی کہ لادینیت کے درآمد شدہ جھٹکوں کو سہہ سکے اور بے دینی کے تمام اندرونی اور بیرونی حملوں کا سرخ روئی کے ساتھ مقابلہ کر سکے۔ دین اس وقت تک معاشرے کی فعال بنیاد نہیں بن سکتا جب تک ہماری شخصیت اور ہماری اجتماعیت، دونوں، کی تشکیل دین کے دیے ہوئے اخلاقی سانچے میں نہ ہو۔ تو دین کے اخلاقی مقاصد کی طرف اپنے شعور و وجود میں یکسو ہوئے بغیر اور خود کو اُن مقاصد سے داخلی اور عملی سطحوں پر ہم آہنگ رکھے بغیر دین کو اجتماعیت کا مرکز بنانا اور اسے انفرادیت کے قلب میں اتارنا ممکن نہیں ہے۔ ہم جب تک رسول اللہؐ کے ذوقِ اتباع کو پروان چڑھا کر اپنے اخلاقی وجود کو سیراب اور فعال نہیں کریں گے، اس وقت تک ہماری شخصیت اور ہمارے معاشرے میں وہ قوت پیدا ہی نہیں ہوسکتی جو اس عالمگیر معرکے میں ہمارے دفاع اور ہماری کامیابی میں کوئی مؤثر کردار ادا کر سکے۔ تو بھائی، ابھی وقت ہے، اب بھی رسول اللہؐ کے ذوقِ عبادت اور حسنِ معاشرت کو اس کی اسپرٹ اور درست صورت کے ساتھ اختیار کر لو ورنہ مسلمان رہ سکو گے نہ انسان بن پاؤگے۔ خدا نخواستہ ایسا نہ کیا تو تم خود بتاؤ کہ تم کس دین کے لیے لڑوگے؟ اس دین کے لیے جو خود تمہارے اندر موجود نہیں ہے! جو سوسائٹی خود دین سے منہ پھیر چکی ہے، جو طبقات خود دین سے عملاً اور حالاً منحرف ہو چکے ہیں، کیا وہ صرف اپنی زبانی کلمہ گوئی کی بنیاد پر دین کے سوشل اسٹرکچر کا دفاع کر سکتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ سو پہلی بات تو یہ ہے کہ خدا کرے کہ ہمیں یہ صورت ِ حال پیش نہ آئے لیکن حالات بہرحال اسی طرف جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اب دنیا کی بڑی طاقتوں اور تہذیبوں میں اس بات پر اتفاق ہوتا جا رہا ہے کہ اصلاح مسلمانوں کی نہیں بلکہ خود اسلام کی ہونی چاہیے۔ اصل خرابی، نعوذ باللہ، اسلام میں ہے۔ جدید آدمی اور جدید دنیا کے لیے یہ دین سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ہم اپنی طرف سے تو باقی دنیا کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ داعش ایسی تنظیمیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ اسلام نہیں ہے، لیکن ہماری اس صفائی پر یقین کرنے والے روز بروز تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا کے بہت بڑے حصے کو اب یہ یقین ہے کہ اسلام اصل میں وہی ہے جو دہشت گردوں کے ہاں نظر آتا ہے۔ باقی علما یا تو تقیہ کررہے ہیں یا پھر حقیقی اسلام کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ ہم جب داعش وغیرہ کی مخالفت کرتے ہیں تو اب اُسے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایسا ہم مغرب سے ڈر کر یا اُسے خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ آپ ذرا سا باہر نکل کر دیکھیں اور امریکا، یورپ، بھارت وغیرہ کے اخبارات دیکھیں اور وہاں نئی لکھی جانے والی کتابوں کا مطالعہ کریں تو بخدا راتوں کی نیند اڑ جائے گی۔ دنیا کو بنانے اور بگاڑنے کی تقریباً تمام قوتیں جن قوموں کے پاس ہیں اُن میں یہ اتفاق ِ رائے ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے کہ مسلمانوں کو جدید دنیا میں ایک خطرناک مخلوق بننے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے دین کی اصلاح کی جائے۔ یعنی بالفاظ ِ دیگر انہیں ان کے دین سے دور اور لاتعلق کر دیا جائے۔ خود مسلمانوں کی ایسی نفسیات بنا دی جائے کہ انہیں اسلام سے ڈر لگنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا جائے جو یورپی نشاۃِ ثانیہ میں عیسائیت کے ساتھ ہوا تھا۔ دین، خدا اور خدا سے تعلق، یہ سب انفرادی امور ہیں جن کی ہر فرد کو آزادی ہے، لیکن انفرادی دائرے سے باہر نکل کر اگر اُسے اجتماعیت کو تشکیل دینے یا کچھ عقائد و اعمال وغیرہ کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے گی تو اسے قوت اور قانون سے روکا جائے گا۔ ہمارے اندر اور باہر سے بھی اس مطالبے کی شدت میں اضافہ ہوتا جار ہا ہے کہ ہم بھی دیگر اہل ِ مذہب کی طرح اس بات پر راضی ہوجائیں کہ دین محض فرد کا معاملہ ہے، ریاست اور سوسائٹی کا مسئلہ نہیں ہے۔ ہمیں یہاں تک پہنچانے کے لیے جبری اور مصنوعی طریقے سے نئے تضادات ایجاد کر کے انہیں ہماری ہیئت ِ اجتماعی کی نئی تشکیل کرنے والے محرکات کی حیثیت دی جارہی ہے۔ اور اس طرح نفس اور معاشرے کی اندرونی ساخت میں ایک نیا جدلیاتی پیٹرن تیزی سے اپنی جگہ بناتا جا رہا ہے۔ اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو دین کو ایک رومانوی خواب ناکی کے ساتھ فرد تک محدود کرنے والا یہ ماحول مسجد اور مدرسے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیگا اور ہمیں منبر سے یہ آواز سننی پڑے گی کہ دین فرد کا نجی معاملہ ہے اور اگر کوئی مسلمان اپنی مرضی سے اسلام چھوڑ دیتا ہے اور اسلام چھوڑنے کے حق میں اِدھر اُدھر تقریریں کرتا پھرتا ہے تو یہ اس کا حق ہے، اسے روکنا ٹھیک نہیں۔ یہ باتیں اتنے زور وشور سے کی جائیں گی کہ مذہبی طبقہ گونگا ہوکر رہ جائے گا یا کانوں میں انگلیاں ٹھونس لے گا۔ اس اذیت سے بچنا ہے تو ابھی سے تیاری کرو حقیقت پسندی کے ساتھ، سنجیدگی کے ساتھ، استقامت کے ساتھ، خود احتسابی کے ساتھ۔
امن و سلامتی، انصاف و مساوات وغیرہ معاشرے کی فطری اقدار ہیں۔ یہ اقدار اتنی فطری ہیں کہ ان پر کفر و ایمان کا فرق بھی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا۔ ہماری معاشرت میں ان فطری اقدار کا تقریباً فقدان اس سبب سے ہے کہ ہم تصور میں مسلمان ہیں اور عمل میں ابھی پوری طرح انسان بھی نہیں ہیں۔ ہم یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ اسلام لانے کی دعوت انسانوں کو دی گئی ہے، یعنی انسان ہونے میں کوئی نقص ہے تو آدمی اسلام لانے ہی کی اہلیت میں ناقص ہے۔ ہم نے بہت بے وفائی کی ہے، ہم نے بہت غفلت کی ہے اور ہم نے اللہ کے سچے داعیوں اور رسول اللہؐ کے صادق ترجمانوں کی سخت اہانت اور ناقدری کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین ہمیں حالت ِ فخر، حالت ِ شکر، حالت ِ نشاط اور حالت ِ تسکین میں نہیں رکھتا۔ توخیر، اس پاتال سے نکلنے کا پہلا عمل بہرحال یہی ہے کہ امت کے دھاگے سے اپنی اجتماعیت کے مختلف دانوں کو ایک لڑی کی شکل دی جائے اور رسول اللہؐ کے امتی ہونے کا جذبہ اور مقصود لے کر اپنے نظام ِ تعلق کو اس سے مشروط اور مربوط رکھا جائے۔ اس وقت زمین پر موجود ایک ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خدا سے لا تعلق رکھنے پر اصرار کرنے والی اس عالمگیر صورت ِ حال میں اپنی بساط بھر کوئی نہ کوئی مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرے۔ اچھا ماضی برے حال کی تلافی نہیں کرتا۔ مغرب کے مقابلے میں اپنی فضیلت کے ہم جتنے بھی دعوے کرتے ہیں ان دعووں کا ثبوت اپنے ماضی ِ بعید سے لاتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی کی نظر ہمارے حال پر نہ پڑے۔ اور پھر ان دعووں کی تردید کے لیے درکار سب سے بڑی دلیل تو ہم خود ہیں۔ یعنی ہمارے تمام دعووں کو غلط ثابت کرنے کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، بس ایک آئینہ کافی ہے۔ ہمارے بارے میں غلط نہیں کہا جاتا کہ ہم حال کو جہنم بنا کر ماضی کی جنت میں رہتے ہیں۔ کبھی سوچیے کہ وہ کون سی اسلام کی برکت ہے جو مسلم معاشرہ دنیا کو دکھانے کے قابل ہے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی فطرت میں خیر اور اس کی شناخت رکھی ہے جو اس کے اخلاق اور اخلاقی مظاہر اور اس کی اجتماعیت اور معاشرت کے تمام گوشوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ نے خیر اور اس کے ادراک و اظہار پر قدرت کو فطری اور آفاقی رکھا ہے کہ معاشرہ مساوات والا ہو، انصاف والا ہو، سلامتی والا ہو۔ یہ سب وہ اقدار ہیں جن کی شناخت اور قدردانی اللہ نے ہماری فطرت میں ودیعت کر رکھی ہے۔ اس پہلو سے کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے فلاں فطری آئڈیل کو اپنی سوسائٹی میں عمل میں لاکر دکھا دیا ہے۔ اس وقت کوئی ایک مسلم معاشرہ اور ریاست ہے جو یہ کہہ سکے کہ اُس نے آفاقی اخلاق اور فطری خیر کو اسلام کی رہنمائی کی بدولت باقی دنیا کے مقابلے میں کہیں اعلیٰ درجے پر قائم کردیا ہے۔
پشاور کے آرمی اسکول میں جو سانحہ ہوا تھا، اس کی مذمت میں سب سے بڑا جلوس اہلِ مدارس کا نکلنا چاہیے تھا اور اس پر مذہبی طبقات کی جانب سے اعلان ِ جنگ آنا چاہیے تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ سنگ دلی اور قبائلی عصبیت ہے جس سے پیدا ہونے والے جذبات کو ہم دینی جذبات سمجھتے ہیں۔ ظلم کافر پر بھی ہو تو ظلم ہی ہے، رحمت نہیں بن جاتا، اور اس کے خلاف کھڑے ہونا اور مظلوم کی مدد کو پہنچنا، یہ سب دین داری ہی ہے۔
تو بھائی، اللہ کا بندہ ہونے اور رسول اللہؐ کا امتی ہونے کی حیثیت کو اپنے ہر تشخص اور تعلق پر غالب رکھو گے تو ان شاء اللہ وہ اخلاق نصیب ہوگا جو ہماری اجتماعیت اور انفرادیت، دونوں، کی تعمیر ان اینٹوں سے کرے گا جو زمین سے نہیں نکالی گئیں، آسمان سے اتاری گئیں ہیں۔