دور کی کوڑی

692

سیاست کا دارومدار امکانات پر ہوتا ہے۔ دیگر معاملات ِ زندگی کی طرح سیاسی معاملات میں بھی کئی ایسے امکانات ہوتے ہیں۔ جن میں کامیابی کے ابواب زیادہ قوی اور یقینی ہوتے ہیں۔ پھر بھی ان کے نتائج پر غور وغوض کیا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ سیاست رادھا کی طرح نومن تیل کی متقاضی ہوتی ہے۔ نو من تیل نہ ہونے کے باوجود اس کا رقص دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس موقع پر آر یا پار کی سوچ حاوی ہو جاتی ہے مگر سیاسی نشیب و فراز سے واقفیت رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اور پھر اللہ کے بھروسے پر خاموشی کی بکل میں بیٹھ کر ٹائمنگ کا انتظار کرتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی پارٹیاں ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف تھیں وہ پیپلز پارٹی کی فطرت اور خصلت سے اچھی طرح واقف تھی انہیں یہ بات بھی یاد تھی کہ آصف علی زرداری کی نظر میں عہد وپیمان کی کوئی وقعت ہی نہیں تھی۔ موصوف بارہا اپنی سوچ اور ذہنیت کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ یہ کہنے سے کبھی نہیں ہچکچائے کہ وعدے اللہ اور اس کے رسول کے کلام کی طرح مقدس نہیں ہوتے۔ سو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے۔ تو یہاں ثواب اور گناہ کہ کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ سیاست صرف سیاست ہوتی ہے۔ جو محل وقوع اور وقت کی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ موقع کبھی نہیں گنواتے اور اپنی منہدم سوچ کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے رہتے ہیں۔ دل بہانے بازی کا شوقین ہوتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو ادراک ہوتا ہے۔ کہ شوق عموماً خسارے کا باعث بنتا ہے مگر شوق کی قیمت کا احساس سبھی کو ہوتا ہے۔
ملک و قوم کی بد نصیبی یہ ہے کہ سیاست کو جوا سمجھنے کا رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔ اس ضمن میں دلچسپ اور حیران کن بات یہ بھی ہے کہ رنگروٹ سیاست دان سیاست کے علاوہ ہر معاملے میں سوچتے ہیں۔ یہ کیسی حیران کن بات ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ٹوٹ پھوٹ پر سیاسی مبصرین اور نام نہار دانشور اپنی پیش گوئیوں کے حوالے دے کر اپنی سیاسی بلوغت کی تشہیر کر رہے ہیں۔ حالانکہ عوام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز مولانا فضل الرحمن کو بابائے جمہوریت بننے نہیں دیں گے۔ پاکستان کی بدنصیبی یہی ہے کہ اس کے مروج سیاسی نظام میں علمائے دین کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
مریم نواز شریف بولتی ہیں کہ ان کی آواز حکمرانوں کی سماعت کو اس حد تک مجروح کر دیتی کہ لہو رسنے لگتا ہے اگر وہ خاموش رہیں تو ان کے دلوں میں پریشان کن خیالات اچھل کود کرنے لگتے ہیں۔ اور دماغ میں ایسے ایسے وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں کہ انہیں اپنی پیدائش پر افسوس ہونے لگتا ہے۔ تحریک انصاف کے کئی رہنماء حیران ہیں کہ مریم نواز نے چپ شاہ کا روزہ کس منت کے پورے ہونے کے لیے رکھا ہے۔ کھوجیوں کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود مریم نوازکی خاموشی کا کھوج نہ لگا سکے۔ حالانکہ اس معاملے میں کسی کھوجی کی خدمات سے استفادہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پاکستان کا ہر با شعور سامع و قاری جانتا ہے کہ بلاول زرداری وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے تمام سیاست دانوں کو کٹھ پتلی تسلیم کر چکے ہیں۔ اور یہ اعتراف بھی کر چکے ہیں کہ ان کی ڈور کسی اور کے ہاتھوں میں ہے۔ گویا یہ سبھی کسی اور کے ہاتھوں کے کھلونے ہیں۔ کھلونوں کا المیہ یہ ہے کہ جب دل بھر جائے تو دوسرا کھلونا خرید لیا جاتا ہے۔ وطن عزیز کی بد نصیبی یہی ہے کہ یہاں کھلونوں کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس مانگ کی خوبی یہ ہے کہ اس کو سیندور کی ضرورت نہیں پڑتی اسے خون سے بھرا جاتا ہے سیاست دانوں کی خوش بختی یہ کہ خون کا نرخ ہر چیز سے کم ہے۔
ہمارے ہاں خون سبزی سے بھی سستا ہے۔ اروی اور توری جیسی معمولی سبزیاں بھی 120 روپے فی کلو فروخت ہورہی ہیں۔ خون بہانا بیوی بچوں کی بھوک مٹانے کا وسیلہ بھی بن سکتا ہے۔ واقعی! وزیر اعظم عمران خان سچ کہتے ہیں کہ موصوف اپنے سیاسی منشور کے مطابق تبدیلی لا چکے ہیں۔ ان کی تبدیلی سے معیشت میں کمی آرہی ہے۔ اور مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر عمران خان نے وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کر لی تو قوم عمر بھر عدت پوری کرتی رہے گی۔ مگر حالات کبھی یکساں نہیں رہتے ہوائیں اپنا رخ بدلتی رہتی ہیں خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ قدرت اور فطرت کو یکسوئی پسند ہے یکسانیت نہیں۔ مگر وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حاشیہ برداروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آسکتی کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ کسی کی بات کو سمجھنے کے لیے سمجھدار ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ سو تحریک انصاف سے سمجھ داری کی توقع کار عبث ہے بلکہ حماقت کی دلیل ہے۔ احمق کہلوانا کوئی پسند نہیں کرتا سو ٹی وی اینکر اور پرنٹ میڈیا کہ دانشور وزیر اعظم عمران خان کی معاشی پالیسی اور معیشت کی بہتری کے لیے دور دور سے ایسی کوڑیاںلاتے ہیں کہ خود کبڑے ہوجاتے ہیں۔