قیامُ اللیل کے آداب

340

امام حسن بصریؒ نے فرمایا کہ میں نے رات کی نماز سے زیادہ سخت عبادت نہیں دیکھی۔
جب ان سے پوچھا گیا: تہجد گزاروں کے چہرے اتنے اچھے کیوں ہوتے ہیں؟
فرمایا: ’’تنہائی میں رحمان سے مناجات کیں تو رحمٰن نے اپنے نور کی خلعت سے نوازا‘‘۔
عام راتوں کی عبادت کی فضیلت میں یوں تو بہت ساری آیتیں، حدیثیں اور اقوال ملتے ہیں، لیکن رمضان کی راتوں کی فضیلت جداگانہ ہے۔ ارشاد نبویؐ کے مطابق: ’’جس نے رمضان کی راتوں کو ایمان واخلاص کے ساتھ عبادت میں گزارا، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے‘‘۔
پھر بالخصوص رمضان کے آخری دس روز کے سلسلے میں رسول پاکؐ کا خصوصی اہتمام منقول ہے کہ جب آخری عشر ے کا آغاز ہوتا تھا تو کمر کس لیتے تھے، اہل خانہ کو جگاتے تھے اور رات کو زندہ کر دیتے تھے۔ یہ بیان عائشہؓ کا ہے اور رات کو زندہ کر دینے کا مفہوم وہی سمجھ سکتا ہے جو شب بیداری اور دعاے نیم شبی کے تجربات سے گزر چکا ہو۔
ایک مرتبہ رسول پاکؐ نے عبداللہ بن عمرؓ کے حوالے سے کہا: ’’عبداللہ بہت اچھا آدمی ہے اگر وہ رات میں عبادت بھی کرنے لگے‘‘۔ سالم کا بیان ہے کہ پھر عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی نیند بہت گھٹا دی اور تاحیات قیامِ لیل کے معمول پر قائم رہے۔
دراصل رسول پاکؐ کی عبداللہ بن عمرؓ کے سلسلے میں شہادت اور پھر یہ لطیف اشارہ ایک بہت بڑا محرک تھا۔ جس کی تحریک نے انھیں تاحیات شب بیداری پر قائم رکھا۔ ہمارے لیے بھی سارے محرکات اور معاون ذرائع موجود ہیں جن کا اہتمام کیا جائے تو اس عظیم عبادت کا پابند ہونا مشکل نہیں ہے۔ علمائے کرام نے اس سلسلے میں بہت کچھ ذکر کیا ہے:
٭جہنم کا خوف اور جنت کی طلب۔ ایک بزرگ کا کہنا تھا: جہنم کے تصور نے عبادت گزاروں کی نیند اڑا دی۔ دوسرے بزرگ کے بقول: جب میں جہنم کو یاد کرتا ہوں تو میں بے حد خوف زدہ ہو جاتا ہوں اور جنت کو یاد کرتا ہوں تو اس کی طلب بے پناہ ہو جاتی ہے۔ دراصل یہی خوف اور یہی طلب قیامِ لیل کا محرک بنتی ہے۔
٭گناہ اور نافرمانی سے اجتناب۔ فُضیل بن عیاض کہا کرتے تھے: جب تم یہ دیکھو کہ رات کو اٹھ نہیں پاتے ہو، اور دن میں روزہ نہیں رکھ پاتے ہو، تو سمجھ لو کہ تم بدنصیب ہو اور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہو۔ یہ بیڑیاں تمھارے گناہ ہیں جنھوں نے تمھیں جکڑ رکھا ہے۔
حسن بصریؒ سے ایک آدمی نے پوچھا کہ میں اچھا خاصا سوتا ہوں، رات میں اٹھنا بھی چاہتا ہوں، وضو کا پانی بھی رکھ دیتا ہوں، پھر آخر کیوں نہیں اٹھ پاتا ہوں؟ انھوں نے جواب دیا: تمھارے گناہوں نے تمھیں باندھ رکھا ہے۔
امام ثوری کہتے ہیں: محض ایک گناہ کی وجہ سے مَیں پانچ مہینے تک قیامِ لیل سے محروم رہا۔
٭مناجاتِ رب کی لذت۔ ابوسلیمان کہتے ہیں: رات کو اٹھنے والوں کو عبادت کرنے میں اتنا مزہ آتا ہے، جتنا عیاشی کرنے والوں کو آہی نہیں سکتا، اور اگر رات نہ ہوتی تو میں دنیا میں رہنا ہی پسند نہ کرتا۔
ایک بزرگ نے اپنے مریدوں کو خطاب کرکے کہا: زیادہ مت کھاؤ، ورنہ زیادہ پانی بھی پیوگے، زیادہ سونا بھی پڑے گا اور انجامِ کار زیادہ گھاٹے میں رہوگے۔