پی ڈی ایم کیا ہے؟

468

بہت سے لوگ یہ سوال کررہے ہیں کہ کیا پی ڈی ایم اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی۔ کیا اس نے اپنے اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ بلکہ یہ سوال بھی ہے کہ یہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی کوئی تحریک ہے یا اس کا کوئی اور مقصد ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں تو ایک جنگ چل رہی ہے لیکن اس جنگ میں کودنے کا مطلب یہ ہے کہ اچھلنے والے کیچڑ میں لت پت ہونے کی تیاری کرلیں۔ پھر بھی اس حوالے سے چلنے والی بحثوں پر بات کرنا ضروری ہوتا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے بلکہ یہ محسوس کرایا جارہا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو بحال کرنے کا کام مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ان کے ساتھ شامل جماعتیں کررہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی تو براہ راست حکومت میں رہی ہیں اور ان کے ساتھ سب سے اہم جماعت جے یو آئی (ف) ہے جو کبھی مسلم لیگ کے ساتھ اور کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتدار میں رہی ہے۔ باقی پارٹیاں اتحادی یا ہمنوا ہیں۔ یہ جماعتیں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلا رہی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت صرف ڈھائی سال میں تباہ و برباد ہوئی ہے۔ اس سے قبل جمہوریت بہت اچھی طرح کام کررہی تھی یا بروئے کار لائی جارہی تھی۔ اکثریت کا احترام تھا ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کررہا تھا۔ اسمبلیاں ربر اسٹیمپ نہیں تھیں قانون سازی کرتی تھیں اور ہر قانون بننے سے قبل اس کے اچھے برے تمام پہلوئوں پر اچھی طرح غور کیا جاتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے ایسا نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی حکومت کے بارے میں تجزیہ کیا جائے تو اس میں اپنی کوئی برائی ہے ہی نہیں کیوں کہ پی ٹی آئی کا اپنا کچھ نہیں ہے۔ اس کے اپنے ایم این اے نہیں ہیں، بیشتر وزیر اس کے اپنے نہیں ہیں، ایک وزیراعظم ہیں اور ایک اسد عمر ہیں جن کو پی ٹی آئی کا کہا جاسکتا ہے۔ باقی سب پی ٹی آئی کی حکومت میں درآمد شدہ یا درانداز ہیں۔ تو پھر پی ٹی آئی پر یہ الزام لگانا درست نہیں کہ اس نے جمہوریت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ جمہوریت میں جتنی خرابیاں کرنی تھیں وہ سابقہ حکمران جماعتوں نے کیں یا فوجی حکومتوں نے اور ان کے لے پالکوں نے… پی ٹی آئی کا قصور تو اتنا ہے کہ اس نے اس خرابی میں اضافہ بہت تیزی سے اور بہت زیادہ کردیا۔
اب اگر پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جمہوریت بحالی کی کوئی تحریک چلائی جائے تو اس میں وہ جماعتیں نہیں ہونی چاہئیں جو سابقہ ادوار میں حکمرانی کے مزے لے چکیں اور ملک میں بہت سی خرابیوں کی ذمے دار ہیں۔ آج کل جس چیز پر لے دے ہورہی ہے وہ سینیٹ کے الیکشن ہیں اور اس کے بعد قائد حزب اختلاف کا تقرر ہے۔ پاکستان جمہوری تحریک یعنی پی ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت بحال کرے گی لیکن سینیٹ کے الیکشن میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک امیدوار کے ووٹ ٹھیک نکلے دوسرے کے غلط ہوگئے۔ اس طرح چیئرمین کے الیکشن میں بھی ایک امیدوار کے ووٹ ٹھیک نکلے اسی پارٹی کے دوسرے امیدوار کے ووٹ غلط ہوگئے۔ اور یہ سارا کام مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی والوں نے کیا، یہی لوگ پی ڈی ایم اور حکومت بنے ہوئے ہیں۔ یعنی جو بھی کیا ان ہی لوگوں نے کیا جو جمہوریت تباہ کرنے کے ذمے دار ہیں یا جمہوریت کی تباہی میں اضافے کے ذمے دار اور اب بحالی جمہوریت کے دعویدار ہیں۔ خرابی اس وقت شروع ہوئی جب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کے تقرر کا موقع آیا۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ میں قائد ایوان وہ ہوتا ہے جس کی پارٹی کی اکثریت ہو اور اس کے بعد اپوزیشن میں جس پارٹی کے زیادہ ارکان ہوں اس کا نمائندہ قائد حزب اختلاف بنتا ہے۔ یہی شہباز شریف صاحب اپنی پارٹی سے خط لے کر آئے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد اپوزیشن میں سب پارٹیوں سے زیادہ ہے اس لیے مجھے قائد حزب اختلاف مقرر کیا جائے اسپیکر نے درخواست اور دستخط کی تصدیق کے بعد ان کا تقرر کردیا۔ اسی طرح جب سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کا معاملہ پیش آیا تو پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی ایک خط لے کر آئے اور چیئرمین سینیٹ کے سامنے پیش کیا اس میں پیپلز پارٹی کے خط کے مطابق ارکان کی تعداد اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ تھی اور کسی دوسری جماعت نے اس کی درخواست بھی نہیں کی تھی تو پھر لامحالہ یوسف رضا گیلانی ہی کو قائد حزب اختلاف بننا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی طوفان کھڑا ہوا اور مسلم لیگ نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو نشانے پر لے لیا۔ جماعت اسلامی کا قصور کیا تھا۔ صرف یہ کہ اس نے ایک پارلیمانی روایت کی پاسداری کی تھی یعنی پی ڈی ایم جو دعویٰ کررہی ہے جماعت اسلامی نے اس پر عمل کردیا۔ اس کو بحالی جمہوریت کہتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کا احترام کیا جائے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ جو پارٹیاں پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) بنی ہوئی ہیں وہ پورے ملک کے مسائل حل کرنے کی دعویدار ہیں ملک میں انتخابی نظام کی خرابی دور کرنے کی خواہاں ہیں وہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ یا دوسرے الفاظ میں فوج اور دیگر اداروں کی مداخلت کے خلاف ہیں اس کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ پارٹیاں کرپشن ختم کرنا چاہتی ہیں۔ یہ پارٹیاں 22 کروڑ عوام کو ان کے حقوق دلانا چاہتی ہیں لیکن ان میں ایک دوسرے کے لیے اتنی وضع داری، وسعت قلبی اور جمہوری تعلق نہیں کہ اپنی جدوجہد میں شریک ایک پارٹی دوسری پارٹی کو اس کا پارلیمانی حق دینے کو تیارہوجائے۔ کیا ہو جاتا اگر مسلم لیگ (ن) بھی پی پی پی کو عددی اکثریت کی بنیاد پر قائد حزب اختلاف کا عہدہ دینے کی حمایت کردیتی۔ اس کے بجائے اب جو بیان بازیاں ہورہی ہیں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری ہورہے ہیں ان کا کیا مطلب سمجھا جائے۔ جمہوریت کی بحالی کا پہلا قدم تو یہی تھا کہ پی ڈی ایم کی پارٹیاں آپس میں نرمی اور محبت کا مظاہرہ کریں لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مسلم لیگ جماعت اسلامی پر چڑھ دوڑی۔ اگرچہ جماعت اسلامی نے جو کام کیا ہے وہ محض پارلیمانی روایات کی پاسداری ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کے غبارے سے ساری ہوا محض ایک چھوٹی سی سوئی (قائد حزب اختلاف کے تقرر) نے نکال دی۔
زیادہ بحث کی ضرورت نہیں صرف اتنا کافی ہے کہ پاکستان میں پیپلز پارٹی 1972ء سے۔ مسلم لیگ (ن) جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے درمیان میں پیپلز پارٹی کنونشن مسلم لیگ کے نام سے اور فوجی جرنیل اقتدار میں رہے۔ پورے ملک کا معاشی، سماجی، تجارتی، تعلیمی عدالتی پارلیمانی ہر طرح کا نظام ان ہی حکمرانوں نے تباہ کیا لیکن اس تباہی پر نشانہ کبھی بھٹو کو، کبھی نواز شریف کو کبھی عمران خان کو بنایا جاتا ہے۔ جب کہ ان تینوں کے پاس ایک ہی جگہ سے بھیجے گئے لوگ ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے بارے میں اتنا شور ایسے مچایاجارہا ہے جیسے سینٹ الیکشن میں غلط جگہ نشان جماعت اسلامی نے لگوائے تھے اور دستخط بھی جماعت اسلامی والوں نے کیے تھے۔ پھر چیئرمین کے انتخاب میں اکثریت والے پیچھے رہ گئے اور اقلیت والوں کا چیئرمین بن گیا۔ اس مرتبہ بھی شاید آدھے ووٹ جماعت اسلامی نے غلط اور آدھے صحیح ڈلوائے تھے۔ ساری خرابیاں خود کرو، ساری کرپشن، جوڑ توڑ خود کرو اور الزام جماعت اسلامی پر ڈالو۔ یہ ہے پی ڈی ایم۔ دراصل ان میں سے کسی پارٹی کے پاس اخلاقی جواز ہے ہی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) اپنے اقتدار میں آنے کے طریقوں پر تو غور کرے وہی کچھ تو ہوتا تھا جو اس مرتبہ پی ٹی آئی کو لانے کے لیے کیا گیا۔ پیپلز پارٹی بھی غور کرے اس کے لیے بھی میدان اسی طرح صاف کیا جاتا تھا۔ اور ہاں… ق لیگ… وہ بھی اسی طرح بنائی گئی اور اسی طرح اقتدار میں لائی گئی۔ اسی طرح اس کو بھی لوٹے فراہم کیے گئے۔ اسی قسم کی دھاندلیاں کی گئیں اور گنتی پوری کرکے وزیراعظم بنایا گیا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پی پی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کے پیچھے جو سلیکٹرز ہیں یا رہے ہیں وہ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق تھے۔ صرف ق لیگ ایسی پارٹی تھی جس کا سلیکٹر اس کے ساتھ کھڑا تھا اور علی الاعلان ق لیگ والے بھی اسے باس کہتے تھے۔ اب ذرا ساری صورت حال سامنے رکھ کر غور کریں کہ یہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ہے یا پاکستان ڈیزاسٹر موومنٹ؟ یہ سوشل میڈیا کے لیے سوال ہے۔