کورونا ویکسین کب تک موثر رہے گی؟

599

ملک میں کورونا کے پھیلائو کے ساتھ ساتھ کورونا ویکسین لگانے کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ ویکسین چین نے ہمیں خیرات میں دی ہے۔ حکومت نے اس کے لیے کوئی فنڈ قائم نہیں کیا اور نہ ہی ملک کے بڑے بڑے صنعتی اور کاروباری گروپوں اور سرمایہ داروں سے کوئی مالی تعاون حاصل کیا ہے۔ حکومت نے کورونا ویکسین بنانے کی ذمے داری بھی کسی ادارے کو نہیں سونپی۔ ابتدا میں خبر آئی تھی کہ پاکستان میں بھی کورونا ویکسین کی تیاری کا عمل شروع ہوگیا ہے اور پاکستانی قوم جلد ہی اپنے ملک کی تیار کردہ ویکسین استعمال کرکے اس وبا پر قابو پاسکے گی لیکن پھر یہ خبر بہت سی خبروں کے انبار میں دب گئی اور پتا چلا کہ حکومت اس کھکھیڑ میں نہیں پڑنا چاہتی، اسے توقع ہے کہ بیرونِ ملک سے اتنی ویکسین بطور خیرات آجائے گی کہ ملک کی بائیس کروڑ آبادی کے لیے کافی ہوگی لیکن ہوا یہ کہ صرف چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی راج رکھتے ہوئے ہمیں خیرات کا مستحق سمجھا۔ وہ اب تک پاکستان کو ویکسین کی لاکھوں خوراکیں فراہم کرچکا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ پاکستان میں بھی یہ ویکسین بزرگ شہریوں کو مفت لگائی جارہی ہے لیکن ہمارے ہاں کرپشن ہر معاملے میں خون کی طرح گردش کرتی ہے۔ ویکسی نیشن کے اس عمل میں بھی کرپشن نے اپنا رنگ دکھایا ہے۔ خبروں کے مطابق لاہور کے کئی اسپتالوں کو ویکسین کی جو خوراکیں فراہم کی گئی تھیں ان کا پورا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ کئی جگہ عملے نے مستحق معمر افراد کے بجائے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو ویکسین لگا کر ٹوٹل پورا کردیا ہے۔ چین کی ویکسین بازار میں دستیاب نہیں ہے کیوں کہ یہ سرکاری طور پر بطور ڈونیشن حکومت کو فراہم کی گئی ہے اور حکومت اپنے زیر انتظام ایک ترتیب کے مطابق بزرگ شہریوں کو لگارہی ہے البتہ بعض میڈیکل کمپنیوں نے پرائیویٹ طور پر بیرون ملک سے ویکسین منگوائی ہے جو بازار میں فروخت ہورہی ہے اور ضرورت مند اسے خرید رہے ہیں۔ پچھلے دنوں روس سے درآمدہ ویکسین ’’سپوتنگ‘‘ کی قیمت کا تنازع کھڑا ہوگیا تھا۔ حکومت نے اس کی جو قیمت مقرر کی تھی وہ ویکسین درآمد کرنے والی کمپنی کو ’’وارا‘‘ نہیں کھائی تھی۔ چناں چہ معاملہ عدالت میں چلا گیا اور عدالت نے کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے فریقین سے کہا کہ وہ باہمی افہام و تفہیم سے معاملہ طے کریں۔ اب یہ ویکسین کمپنی اپنی قیمت پر فروخت کررہی ہے۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ملکوں کی کوئی ویکسین بازار میں دستیاب نہیں ہے ان ملکوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ جب تک اندرونِ ملک اپنی پوری آبادی کی ویکسی نیشن مکمل نہیں کرلیتے کسی دوسرے ملک کو ویکسین فراہم نہیں کریں گے۔
ہم بھارت پر تنقید تو بہت کرتے ہیں اور کرنی بھی چاہیے کہ ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے اس کا کردار بہت گھنائونا ہے۔ وہ اپنی سرزمین پر آباد غیر ہندو اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اس نے کشمیریوں کی آزادی سلب کر رکھی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کی جو باتیں اچھی ہیں ان کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔ مثلاً کورونا کی وبا پھوٹتے ہی اس نے عوام سے تعاون حاصل کرنے کے لیے ’’کورونا فنڈ‘‘ قائم کردیا تھا جس میں بڑے بڑے صنعتی و کاروباری گروپوں نے فراخ دلانہ عطیات دیے ہیں۔ اس فنڈ میں اب تک اربوں روپے جمع ہوچکے ہیں۔ اس فنڈ کی مدد سے اس نے اندرون ملک کورونا ویکسین بھی تیار کرلی ہے اور کسی بیرونی امداد کے بغیر ویکسی نیشن کا عمل مکمل کررہا ہے جب کہ کورونا کے مریضوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں بھی فراہم کی جارہی ہے۔ (یہ الگ بات کہ بھارت کی انتہا پسند ہندو حکومت نے اس معاملے میں بھی غیر ہندو آبادی کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے)۔ پاکستان میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے ایسی کوئی تحریک شروع نہیں ہوئی۔ ہم صرف خیرات پر گزارا کررہے ہیں۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کورونا ویکسین کی عمر کتنی ہے یعنی یہ لگانے کے بعد کب تک موثر رہے گی۔ پہلے یہ تصور کیا جارہا تھا کہ ایک دفعہ ویکسین لگوانے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کورونا سے نجات مل جائے گی لیکن میڈیکل ایکسپرٹس نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ویکسین زیادہ سے زیادہ دو سال تک کارآمد ہوگی اس کے بعد نئی ویکسین لگوانی پڑے گی۔ چین کی ویکسین دو مرحلوں میں لگائی جارہی ہے۔ اب سنا ہے کہ چین سے جو نئی کھیپ آئے گی اس کی ایک ہی ڈوز کافی ہوگی۔ تاہم چین نے بھی یہ نہیں بتایا کہ ویکسین کتنی مدت کے لیے موثر ہوگی۔ ایک ڈاکٹر صاحب بتارہے تھے کہ کورونا بھی عام بیماریوں کے خاندان میں شامل ہوگیا ہے۔ جس طرح فلو، کھانسی، زکام اور دمے کی بیماریاں عام ہیں اسی طرح کورونا کو بھی ایک عام بیماری سمجھیے، جس کا موثر علاج آہستہ آہستہ ترقی کرتا جائے گا اور یہ بیماری جان لیوا نہیں رہے گی۔ بہرکیف جتنے منہ اتنی باتیں، سب ہوا میں تیر چلا رہے ہیں۔ آخری بات یہ کہ کورونا بچوں پر بھی حملہ ہورہا ہے اور نومولود بچوں سے لے کر دس بارہ سال کے بچے اس کا آسان شکار بن رہے ہیں۔ پچھلے چند دنوں کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد میں ڈھائی ہزار بچے کورونا سے متاثر پائے گئے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ اس وبا کو بچوں میں پھیلنے سے روکنے کے لیے خصوصی لائحہ عمل اپنانا چاہیے اور بچوں کے لیے الگ ویکسین تیار کی جانی چاہیے جو قطروں کی صورت میں ہو اور چھ ماہ سے بارہ سال کے بچوں کو آسانی سے پلائی جاسکے۔ کیا پاکستان میں کوئی ریسرچ ادارہ ایسا نہیں ہے جو یہ کام کرسکے؟۔