دہلی میں تاریخی مسجد شہید کرنے کی تیاری

401

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) بھارتی فوج اپنے دفاتر کی تعمیر کے لیے دارالحکومت میں موجود صدیوں پرانی مسجد اور مسلمانوں کے قبرستان کو مسمار کرنے کے درپے ہوگئی۔ خبررساں اداروں کے مطابق بھارت میں انتہاپسند ہندوؤں کے بعد فوج بھی مسلمانوں کے مذہبی تشخص کو پامال کرنے کی سازشوں میں شریک ہوگئی۔ نئی دہلی میں وقف بورڈ نے لودھی روڈ کے پاس واقع صدیوں پرانی لال مسجد کو منہدم کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا، جس پر دہلی ہائی کورٹ سے مسجد کو 29 اپریل تک شہید نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس سے قبل نئی دہلی کی پولیس نے مسجد کے امام کو آگاہ کیا تھا کہ وہ مسجد خالی کر دیں۔ دہلی وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ یہ مسجد صدیوں پرانی ہے، جسے دہلی کے مسلمان حکمرانوں نے تعمیر کیا تھا۔ 1970ء کی حکومتی دستاویزات میں بھی یہ پورا علاقہ مسلم قبرستان اور لال مسجد کے نام سے درج ہے۔ مودی حکومت نے 2017 ء میں قبرستان کو اپنے قبضے میں لے کر پوری زمین کو نیم فوجی یونٹ سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کا مقصد وہاں نئی بیرکیں اور دفاتر تعمیر کرنا تھا۔ عدالتی کارروائی کے دوران وقف بورڈ نے پیش کردہ دستاویزات میں موقف اختیار کیا کہ حکومت نے تعمیر کے لیے زمین لیتے وقت قبرستان اور مسجد کو تحفظ فراہم کر نے کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں حکومت اپنے وعدے سے مکر گئی اور تیزی سے وہاں تعمیرات کا آغاز کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں قبرستان کے آثار تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور صرف مسجد کا حصہ باقی بچا ہے، جسے توڑنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے مسجد کو مسمار کرنے کے معاملے پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے،جس پر حکومت نے عدالت کو 29 اپریل تک کوئی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ واضح رہے کہ 1947ء سے قبل ہندوستان میں جو مساجد اور مسلمانوں کے ماضی کی شان دار یادگاریں ان کا اب دہلی میں نام و نشان تک نہیں ہے۔ دوسری جانب عدالت نے نئی دہلی فسادات کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ پولیس دنگوں کی تحقیقات کے دوران مکمل طور پر جانب دار رہی۔ عدالت نے شمال مشرقی دہلی میں گزشتہ سال ہونے والے فسادات کے دوران مدینہ مسجد شیووہار میں آتش زدگی کے کیس میں پولیس کی سخت تنبیہ کی اور کہا کہ تحقیق کے دوران دہلی پولیس کا رویہ غیر معقول اور جلدبازی پر مبنی ہے۔