سرکلر ریلوے 9ماہ میں بحال کی جائے’ عدالت عظمیٰ‘ کمشنر کراچی کو فارغ کرنیکا انتباہ

314

کراچی(اسٹاف رپورٹر)عدالت عظمیٰ نے کراچی تجاوزات کیس میں ریمارکس دیے کہ کمشنر کراچی اور ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)محض ربر اسٹیمپ ہیں،یہ ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، ان لوگوں سے عام شہریوں کو کتنی مشکلات ہوں گی ؟،ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریق بننے کی درخواست مسترد ،شاہراہ قائدین پر قائم نسلہ ٹاور کو گرانے ،گلشن اقبال بلاک فور ،لیموں گوٹھ نالہ پر تجاوزات ختم کرنے ، کڈنی ہل پارک کی اراضی پر قائم کچی آبادی ہٹانے اور کے سی آر منصوبہ 9ماہ میں مکمل کرنے کے احکامات جاری جبکہ باغ ابن قاسم کی تزئین و آرائش کی پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ۔ گزشتہ روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کراچی رجسٹری میں مختلف کیسز کی سماعت کی۔اس موقع پر گجر نالے کے آس پاس تجاوزات کیخلاف آپریشن کے متاثرین کی بڑی تعداد عدالت کے باہر جمع ہوئی اور گھر کے بدلے گھر دو کے نعرے لگائے۔ پینشنرز اور اساتذہ تنظیموں نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا اور چیف جسٹس انصاف دو کے نعرے لگائے۔چیف سیکرٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔ کمشنر کراچی کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کی رپورٹ پیش کرنے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ شہر میں ہاکی گرائونڈ، کھیل کے میدان بنا دیے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمشنر کراچی کو فارغ کریں، انہیں تو کراچی کے بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں، انہیں کہاں سے امپورٹ کیا؟ ہمارا آرڈر کیا تھا اور یہ کیا بتا رہے ہیں، کمشنر کراچی، ڈی جی ایس بی سی اے کو معلوم نہیں کتنے نیب ریفرنس بنیں گے ،ان کیخلاف، یہ ربڑ اسٹیمپ ہیں بس، یہ ہمارے لیے بڑی مشکلات پیدا کر رہے ہیں، عام شہریوں کے لیے کتنی مشکلات کر رہے ہوں گے یہ لوگ؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انہیں ڈپٹی کمشنرز کے بجائے اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہیے تھی۔چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ بتائیں ہل پارک کا کیا ہوا؟۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ کچھ مکینوں نے نظر ثانی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مکینوں کے وکیل نے کہا کہ ہمیں معاوضہ دیں، 40، 45 سال پہلے گھر خریدے، نقشے موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ جنہوں نے گھر خریدے، انہیں سب معلوم تھا، میں کہیں جگہ لوں گا تو دیکھوں گا تو ضرور، جنہوں نے گھر خریدے وہ اتنے معصوم نہیں۔ عدالت نے ہل پارک تجاوزات کیس میں مکینوں کی فریق بننے کی درخواست مسترد کردی۔کمشنر کراچی نے کہا کہ تیجوری ہائٹس اور کریک سائیڈ شاپنگ سینٹر کو عدالتی حکم پر سیل کر دیا، رائل پارک میں سب ٹاور گرا دیے، باغ ابنِ قاسم میں تعمیرات کو منہدم کردیا گیا۔عدالت نے کمشنر کراچی کو باغ ابن قاسم کی تزئین و آرائش مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ طلب کرلی۔عدالت نے شاہراہ قائدین تجاوزات کیس میں نالے پر قائم نسلہ ٹاور کے بارے میں پوچھا تو کمشنر کراچی نے کہا کہ ایس بی سی اے نے کہا ہے کہ عمارت نالے پر نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایس بی سی اے والے خود ملے ہوئے ہیں، کل عدالت عظمیٰ کی عمارت پر دعویٰ کردیں گے؟ہر مہینے ایس بی سی اے میں اربوں روپے جمع ہوتے ہیں، سب رجسٹرار آفس، ایس بی سی اے اور ریونیو میں سب سے زیادہ پیسہ بنایا جاتا ہے، یہاں ایس بی سی اے بلڈر ہی کی تو ترجمانی کر رہا ہے، 50 سالہ پرانے علاقے میں اچانک کیسے ایک پلاٹ نکل آتا ہے؟، اچانک لیز کردی جاتی ہے؟۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے کو نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دے دیا۔فیروز آباد میں مختار کار تعینات کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس نے کراچی میں مختارکار نہیں، کمشنر کراچی ہی ہوتا ہے، یہاں تو اب کسی کی جائداد محفوظ نہیں رہے گی، فیروز آباد میں مختیار کار پہلی مرتبہ سن رہا ہوں، یہاں سماعت کرنا بے کار ہے ،عدالت نے مختارکار فیروز آباد کو فوری طلب کرلیا۔عدالت عظمیٰ میں کراچی سرکلر ریلوے کے معاملے کی سماعت ہوئی تو کمشنر کراچی نے بتایا کہ ٹریک ریلوے اتھارٹی کو ہینڈ اوور کردیا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ اورنگی سے 14 کلو میٹر کی ٹرین چل گئی ہے جہاں 9 اسٹیشن ہیں۔ سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ کنٹریکٹ ایف ڈبلیو او کے حوالے کردیا گیا ہے۔ اس پر وکیل ایف ڈبلیو او نے جواب دیا کہ ایف ڈبلیو او کو ابھی تک کوئی ٹھیکا نہیں دیا گیا۔سیکرٹری ٹرانسپورٹ نے اس پر کہا کہ کابینہ سے منظوری لے کر ورک آرڈر دے دیا گیا ہے، 25 ملین روپے ایڈوانس پری فزبیلیٹی کے لیے مانگا گیا تھا جو ادا کردیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایف ڈبلیو او کو پیسے بنانے کے لیے یہ کام نہیں دیا گیا ہے، یہ مفاد عامہ کا کام ہے اور آپ پیسے مانگ رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ 25 ملین روپے جس کام کے لیے لیے تھے وہ تو کرلیتے۔کمانڈنگ افسر ایف ڈبلیو او نے کہا کہ ہم سندھ حکومت اور ریلوے کو 4آپشنز دے چکے ہیں، اب 2 آپشنز ہیں جس پر کام ہوگا۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے پاس تجربہ ہے اس کام کا؟، خانیوال میں ریلوے کا ایک کام ملا تھا وہ 8سال سے زیر التوا ہے، آپ وزیراعلیٰ کی رپورٹ پڑھیں انہوں نے کہا آپ کو کچھ نہیں آتا۔ عدالت عظمیٰ نے 9 ماہ میں کے سی آر مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔