استقبال رمضان

348

یوں تو آپؐ جب رجب المرجب کا چاند دیکھتے تو اس کے بعد زبان مبارک پر یہ دعاجاری ہوجایا کرتی اور بارگاہ الٰہی میں بار بار اس دعا کی تکرار کرتے رہتے کہ ’’اے اللہ رجب اور شعبان میں (میری زندگی میں) برکت ڈال کر مجھے رمضان تک پہنچادے‘‘ اس کے بعد جیسے جیسے رجب گزرتا جاتا آپؐ کی بے تابی بڑھتی جاتی۔ جب شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو آپ معمول سے زیادہ عبادت میں لگ جاتے اور فرماتے ’’شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے اس کی فضیلت کے بارے میں زیادہ تر لوگ غفلت میں پڑے ہیں حالانکہ اس مہینے بندوں کے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال اللہ کے حضور پیش ہوں تو میں روزے سے ہوں ’’آپؐ اس مہینے کے ایک ایک دن شمار کرکے گزارتے رمضان المبارک کے مہینے کے سوا کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہیں رکھے جتنے شعبان میں رکھتے تھے۔ پندرہ شعبان کے بعد آپؐ روزہ رکھنے سے منع فرماتے اس غرض سے کہ کہیں اس سے ضعف نہ پیدا ہوجائے اور رمضان کے روزے متاثر ہو جائیں۔ کہتے ہیں کہ مہمان کے ساتھ جتنی محبت ہوتی ہے اس کی قدر وقیمت اور اہمیت اور بڑھ جاتی، اور پھر وہ مہمان جب اپنے چاہنے والوں کے گھر کچھ دنوں کے لیے آنے والا ہوتا ہے تو اس کے شایان شان استقبال کا ایک روح پرور سماں ہوتا ہے۔ اس کے آنے کی اطلاع پر گھروں میں اس مہمان کے اوصاف بیان کیے جاتے ہیں بچّے، عورتیں اور مرد سب ہی اس کی قدر اور خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ اور یہ بھی بات زبان زد عام ہوتی ہے کہ آنے والا مہمان کافی دنوں کے بعد آئے گا وہ کیا کچھ تحائف میزبانوں کے لیے لے کر آئے گا۔ رمضان تو نیکیوں کا موسم بہار ہے اس کی قدر رسول اکرمؐ اور آپؐ کے ساتھیوں سے زیادہ کوئی جان نہیں سکتا۔
آپ صحابۂ کرام رضوان اللہ اجمعین کو جمع کرتے اور خطبہ ارشاد فرماتے، رمضان کے روزوں کی فضیلت بتاتے، اس میں کیے گئے نیک اعمال کے اجر ثواب کا بیان ہوتا آپؐ ان کو بتاتے کہ عام مہینوں میں کوئی ایک نفل نماز ادا کرے گا تو اس کو اخلاص کی بنیاد پر دس سے ستّر اور ستّر سے سات سوگنا تک اجر دیا جاتاہے مگر رمضان میں نوافل کا اجر و ثواب فرائض کے برابر دیا جاتا ہے اور فرائض کا اجر، ستّر فرضوں کے برابر کردیا جاتاہے۔آپؐ فصیح العرب تھے اس طرح رمضان المبارک کی آمد کی منظر کشی فرماتے کہ صحابہ دل و جان سے رمضان کے شوق میں مبتلا ہوجاتے اور سارا سال رمضان کا انتظار ہوتا۔ رمضان کی راتوں کا بیان فرماتے تو سورہ القدر پیش فرماتے اور ان راتوں کی اہمیت اس کے اندر عبادت کا شوق بڑھ جاتا آپؐ فرماتے کہ ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ اس ماہ مبارک میں قیام کیا اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرمادے گا‘‘۔ آپؐ روزے کے بارے میں فرماتے کہ: ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اللہ اس کے تمام پچھلے گناہ معاف فرمادے گا‘‘۔ روزہ دار کے روزہ افطار پر ملنے والے اجر کا بیان ہوتا، صحابہ اکرام کا شوق اس قدر بڑھ جاتا کہ اس ماہ مبارک کی ایک ایک ساعت کی قدر کرتے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں جمع کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے۔
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے امتّوں پر فرض کیے گئے تھے شاید کہ تم پرہیز گار بنو‘‘ سورہ البقرہ۔
آپؐ نے فرمایا کہ ’’جس شخص نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑا اللہ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے سے اللہ کو کوئی غرض نہیں‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا کہ ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے اللہ تعالٰی اس کے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد اور نبی مہربانؐ کی ان دونوں احادیث کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو روزوں کا فلسفہ سمجھ میں آسکتا ہے۔ اوّل تو یہ کہ روزے کا ایک طریقہ ہے اور دوم اس کا مقصد ہے۔ روزہ کا طریقہ اصل میں مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہے۔ مقصد اصل میں تقویٰ کا حصول ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا مطلوب بندے کا بھوکا پیاسا رکھنا نہیں ہے بلکہ تقویٰ ہے۔ انسان بھوکا پیاسا تو رہ رہا ہے مگر اس کے معاملات جیسے پہلے تھے ویسے روز ے کے دوران بھی ہیں۔ اسی طرح دوسری حدیث میں بھی ہے کہ روزہ دار اگر ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھے یعنی روزے کے دوران اس کو اس بات پر پکاّ یقین ہو اس کا دل یکسو ہو کہ اللہ اس کا معبود ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور نبی کریمؐ کا امتی ہے اور جو تعلیمات قرآن کی نبی کریمؐ کے ذریعے سے مجھ تک پہنچی ہیں وہ سب حق اور سچ ہیں اس کیفیت کے ساتھ اس نے روزہ رکھا اور برابر اپنے اعمال پر نظر رکھے اسی کو اپنا احتساب کہتے ہیں ایسا روزہ دراصل اللہ کو مطلو ب ہے اور اس روزے کے نتیجے کے طور پر بندہ ٔ مومن کے تمام پچھلے گناہ معاف ہوںگے۔
اسلام کے نظام عبادات پر اگر بندہ ٔ مومن غور کرے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان تمام عبادات کا مقصد تقویٰ کا حصول ہے یہ تقویٰ ہی انسان کو طاغوت کے خلاف نبرد آزما ہونے کی قوت دیتا ہے۔ صدیوں کی غلامی نے جہاں تہذیب و تمدن اور اخلاق، تعلیم و تربیت کے نظام کو تباہ کیا وہاں اس نے دین میں عبادات کے نظام اور اس کے تصّورات کو بھی دھندلا کردیا ہے۔ آج عبادات کے طریقے ہی کو مقصد سمجھ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے عبادات کے وہ نتائج سامنے نہیں آتے جس کا مظاہرہ ہمارے اسلاف کرتے تھے۔ اس لیے کہ جب گھڑی کے تمام پرزے مل کر کام کریں تو یہ گھڑی وقت بتانے کا مقصد پورا کرتی ہے پرزے اگر الگ الگ پڑے ہوں اگر وہ سونے جیسی قیمتی دھات کے بھی بنے ہوں گے تب بھی وہ وقت بتانے کا مقصد پورا نہیں کرسکیں گے۔
اس بار آنے والے رمضان کو اپنی زندگی کا مثالی رمضان بنانے کے لیے سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگیے کہ اللہ آپ کی نیت کو پورا فرمائے اور اس رمضان کو ایسا رمضان بنادے کہ اس کے رخصت ہوتے وقت گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا پروانہ ربّ کریم جاری فرمادے، دنیاوی کاموں کے غیر ضروری بوجھ کو اپنے کندھوں سے اتاریے، اپنے اوقات کار کو تقسیم کردیں زیادہ سے زیادہ وقت عبادت کے لیے نکالیے رمضان کا لمحہ لمحہ ذکر واذکار کے ذریعے معطر رکھیں اپنے وقت کو بازاروں اور اسکرین ٹائم سے بچائیں۔
مالی ایثار سے اللہ کا غصّہ ٹھنڈا ہوتا ہے اور عمر میں برکت ہوتی ہے نبی کریمؐ رمضان المبارک میں اللہ کے راستے میں انفاق دوسرے مہینوں سے زیادہ فرماتے تھے۔ ان حالات میں کہ جب کورونا نے ملک کے طول وعرض میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے اس میں ضروری ہوجاتا ہے کہ بندہ مومن اپنے غریب رشتہ دارو پر خرچ کرے بغیر اس کی عزت نفس کو مجروح کیے، اس کے علاوہ ایسے ادارے جن کی بہترین کارکردگی کا حوالہ، ان کا ماضی اور حال آپ کے سامنے خلق خدا کی خدمت کے حوالے سے عیاں ہو۔ الخدمت ان ہی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جو لوگوں کی خدمت دیانت کے ساتھ کررہا ہے اس ادارے کے ساتھ بھر پور مالی تعاون فرمائیں تاکہ ملک کے اندر بھوک اور افلاس کے بڑھتے سائے ختم ہوسکیں۔