ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

436

نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی عالمی استعمار کی قوتوں نے ’’جدید نوآبادیاتی نظام‘‘ کی پالیسی بنائی جس کے تحت طے کیا گیا کہ آئندہ آزادی پانے والے ممالک میں براہِ راست قبضے و استحصال کے بجائے یہ کام اندرونی و بیرونی پالیسیوں پر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کنٹرول کرکے کیا جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بڑی طاقتوں نے اپنے نوآبادیاتی نظام کے تحت محکوم ممالک کو آزاد کرنے کا فیصلہ اس وقت کے حالات سے مجبور ہو کر کیا تھا لیکن بعدازاں جدید نوآبادیاتی نظام کے تحت ان ممالک خصوصاً اسلامی ممالک میں اس پالیسی کے مطابق ان ممالک کی اقتصادی، معاشی، سیاسی، دفاعی پالیسیوں میں مداخلت کی اور قرضوں کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے ان کی معاشی و دیگر پالیسیوں کو کنٹرول کیا جس کے نتیجے میں اکثر اسلامی ممالک اپنی خودمختاری کھو بیٹھے اور ان عالمی اداروں کے محتاج ہو کر رہ گئے۔ مصر، رونڈا، لیبیا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ ان کے حکمرانوں کے انجام کی داستانیں آج تاریخ کا حصہ ہیں، ان عالمی اداروں میں انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) سرفہرست ہے۔ پاکستان بھی آج ان قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور ان کی سخت شرائط تسلیم کرنے پر مجبور ہے، ہر آنے والی اور ماضی کی حکومتوں نے آئی ایم ایف کے قرضوں کے سلسلے کو جاری رکھا اور ان کی شرائط کے مطابق قرض حاصل کرتے رہے لیکن موجودہ حکومت جو آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھٹکارا دلانے اور آئندہ قرضہ نہ لینے کا وعدہ کرکے آئی تھی اس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر قرضے حاصل کرنے کے لیے سابقہ تمام حکومتوں کے پیچھے چھوڑ دیا ہے بلکہ ایک قدم مزید آگے بڑھ کر اسٹیٹ بینک پاکستان کو سرکاری تحویل سے آزاد و خود مختار ادارہ بنانے کی شرط کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کردیا ہے جو خطرے کی نشاندہی کرتا ہے جس کا احساس ملک کے ماہر معاشیات قیصر بنگالی نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس کے ذریعے حکمرانوں کو دے دیا ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی اس شرط کو تسلیم کرنے کے بھیانک نتائج سے قوم کو آگاہ کیا اور سابقہ سلطنت عثمانیہ کی مثال پیش کی ہے جو انہی پالیسیوں کے باعث تباہی کے دہانے پر پہنچی اور اپنی خود مختاری کھو بیٹھی۔ 1854ء میں ترکی جو ایک عظیم الشان مسلم قوت تھی وہ تنظیمیات کے دور میں ایسی ہی پالیسیوں کے نتیجے میں یورپی کالونی بن گئی۔ قرضے بے حد تباہ کن شرطوں پر حاصل کیے جاتے رہے۔ سرکاری ذرائع آمدنی کے کئی اہم ذرائع سود کی ادائیگی کے لیے ان طاقتوں (مغربی) کے ہاتھ رہن رکھ دیے گئے، آج ہمیں ماضی کے ان حوالوں کی روشنی میں آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے قرضوں کی ان پالیسیوں پر ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کی نشاندہی ملکی ماہرین معاشیات و دیگر کررہے ہیں۔ ہمیں ان خدشات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جن کا اظہار کیا جارہا ہے اور ماضی و حالیہ دور میں مخصوص اسلامی ممالک کی تباہی کی تاریخ میں ان ہتھکنڈوں کا کتنا حصہ رہا اس سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان عالم اسلام میں واحد ایٹمی صلاحیت رکھنے والا نظریاتی ملک ہے جو عالمی استعمار کی سازشوں میں گھرا ہے۔ بھارت، اسرائیل و دیگر کی نظروں میں اس کی ایٹمی صلاحیت کھٹک رہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کو آزاد و خود مختار بنانے کی حالیہ آئی ایم ایف کی شرط خطرناک سمت کی نشاندہی کررہی ہے۔ پاکستان کو قرضوں میں جکڑا جارہا ہے کہ اس کی معیشت و سلامتی اور خود مختاری کو کمزور کیا جاسکے یہ ایٹمی صلاحیت پر حملہ کا آغاز ہوسکتا ہے۔ (خدانخواستہ) ہمیں ان خدشات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ہمیں بے تحاشا کڑی شرائط کے تحت قرضوں کی نہیں بلکہ اپنے گھر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اندرونی و بیرونی پالیسیوں کی اصلاح، شاہ خرچیوں پر پابندی، لوٹ مار و بدعنوانیوں پر کنٹرول، مضبوط جمہوری کلچر کے فروغ، سیاسی انتشار و بدامنی کے خاتمے، بیوروکریسی کے رویہ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ملک اندرونی طور پر مضبوط ہو اور سیاسی استحکام پیدا ہو تو بیرونی سازشوں کا بخوبی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ملک کو کمزور کرنے کی سازشوں میں اکثر اندرونی آلہ کار اور ان کی پالیسیاں ہی اصل کام کرتی ہیں وہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے ہی اپنے بیرونی سیاسی و معاشی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے راہ کرتے ہیں، ہمیں ایسے آلہ کاروں و کٹھ پتلیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان سے قوم توقع رکھتی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف معاشی میدان میں بیرونی سازشوں کو نظر انداز نہیں کریں گے اور ایسی تمام سازشوں اور ان کے آلہ کاروں سے ہوشیار رہیں گے جو اس ملک کے مفاد کے منافی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ قرضہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا ملکی مفاد میں جائزہ لیں اور حالیہ اسٹیٹ بینک سے متعلق صدارتی آرڈیننس فی الفور منسوخ کریں۔