اسٹیٹ بینک آرڈیننس تباہ کن ، جوہر ی پروگرام بھی متاثر ہو سکتا ہے

101

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) اسٹیٹ بینک آرڈیننس ملک کے لیے تباہ کن ہے جبکہ اس سے جوہر ی پروگرام بھی متاثر ہو سکتا ہے‘ بینک پر ملکی قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا‘ عالمی اداروں کو تمام معلومات دینے کا پابند ہوگا‘ قرضوں کی ادائیگی حکومت کی پہلی ترجیح بن جائے گی‘ آئی ایم ایف ملکی معیشت کوکمزور کرنا چاہتا ہے‘ ریاست کے پاس پولیس اور فوج کو تنخواہ دینے کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے اقتصادی کونسل کے رکن، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے ڈین، معروف ماہر برائے معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن خان، معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی اور برطانیہ کے معروف ٹی وی چینل ’’میسج‘‘ کے ڈائریکٹر، معروف تھنک ٹینک لندن انسٹی ٹیوٹ آف ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر، ایڈیٹر تلخ حقیقت آن لائن، 38 کتابوں کے مصنف، پاکستان سمیت بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے لکھنے والے معروف کالم نویس و تجزیہ کار سمیع اللہ ملک نے جسارت کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میںکیا کہ’’ کیا اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا ہے، ایسا ہے تو اس کے مضمرات کیا ہیں؟ اشفاق حسن خان نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کسی ملک کی معیشت میں بہتری کے لیے نہیں بلکہ کمزور کرنے کے لیے ہوتی ہیں‘ اس کا سیدھا نقصان عوام، گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیراعظم کو ہوگا‘ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بعد گورنر صرف آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر رہ جائے گا‘ آئی ایم ایف کی اس ڈیل کے بعد ہم گورنر اسٹیٹ بینک کوآئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا فنانشل وائسرائے آف پاکستان بنا رہے ہیں‘ تمام مالی ادارے اس وائسرائے کے تابع ہوں گے‘ گورنر اسٹیٹ بینک ہماری پارلیمنٹ و عدالت کو جوابدہ نہیں ہوگا‘ اس پر ہمارے ملک کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا‘ اس بل کے نتیجے میں سماجی انتشار بھی پیدا ہوسکتا ہے‘ ہمارا جوہری پروگرام بھی متاثر ہوگا‘ اس کے علاوہ بجلی بھی بہت مہنگی ہو جائے گی‘ صنعت تباہ ہوگی بلکہ عوام کے لیے بھی بے پناہ مشکلات پیدا ہوں گی اورآئی ایم ایف شرائط سے معیشت 2 ہزار فیصد متاثر ہوگی‘ یہ بل ناصرف معیشت کے لیے تباہ کن ہے بلکہ اس سے ملکی سلامتی کے لیے خطرات بھی دوچند ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے یکم جولائی 1948ء کو کہا تھا کہ اسٹیٹ بینک ہماری معاشی خودمختاری کی علامت ہوگا لیکن اب ہم نے معاشی خودمختاری کی علامت کو بھی گروی رکھ دیا ہے، اس اقدام سے قائد اعظم کی روح ٹرپ اُٹھے گی‘ اسٹیٹ بینک قانون کے تحت ملکی زرعی اور مالیاتی پالیسیوں کو مربوط رکھنے کے لیے ایک کوآرڈی نیشن بورڈ ہوتا ہے، تاہم ترامیم کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک اور وزیر خزانہ باہمی رابطے سے یہ کام کریں گے‘ مجوزہ ترامیم کے مطابق وفاقی سیکرٹری خزانہ اسٹیٹ بینک کے بورڈ کا رکن نہیں ہوگا‘ ملکی معاشی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور ان کی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے‘ اگر حکومت واقعی معیشت کی حالت بہتر بنانا چاہتی ہے تو معاشی امور کی ذمے داری ماہرین کو سونپی جانی چاہیے‘ تمام غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگائی جانی چاہیے‘ اس طرح ہم6 سے 7 بلین ڈالر تک کی باآسانی بچت کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں تمام اداروں میں اصلاحات متعارف کرانی چاہئیں۔ قیصر بنگالی نے کہا کہ اس بل کے بعد اسٹیٹ بینک میں حکومت کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی‘مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا مکمل اختیار بینک کے پاس آ جائے گا اور حکومت اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کو اپنی پہلی ترجیح بنائے‘ دوسرے اخراجات کے بارے میں بعد میں سوچے‘ جب قرضے لے کر قرضوں کی ادائیگی کریں گے تو قرضے اور بھی بڑھتے چلے جائیں گے‘ پولیس اور فوج کو بھی تنخواہ دینے کے لیے پیسے نہیں ہوں گے‘ جدید دور میں ایسا آرڈیننس کہیں منظور نہیں ہوا لیکن تاریخ میں سلطنت عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی کیونکہ ان کے پاس جنگ لڑنے کے لیے پیسے نہیں تھے‘ پیسوں کا کنٹرول سینٹرل بینک کے پاس تھا‘ اگر حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے سکے گی تو پھر کیا ہوگا۔ ایسی صورت میں حکومت کو کمرشل بینکوں سے مہنگے قرضے لینے پڑیں گے اور 80 فیصد سے زاید بینکنگ سیکٹر کی جو ملکیت ہے وہ غیر ممالک کے ہاتھ میں ہے‘ اس لیے ایک طرف حکومت قرض اتارنے پر لگی ہو گی اور دوسری طرف حکومت مزید قرض لینے پر مجبور ہوگی، جس کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کر پائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اپنی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تواپنے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرے‘ حکومتی اداروںسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لوگ کو بھی فارغ کرنا چاہیے۔ سمیع اللہ ملک نے کہا کہ مختلف بین الاقوامی مالیاتی ادارے اس وقت خطرناک کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں‘ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے حوالے سے ایک مسودہ قانون منظرعام پر آیا ہے‘ اس قانون کے بعد اسٹیٹ بینک حکومت کے اختیار سے باہرنکل جائے گا‘ اگر یہ قانون نافذ ہو جاتا ہے توکوئی ادارہ یا فرد اس بات کا مجاز نہیں کہ ا سٹیٹ بینک کے گورنر یا ڈپٹی گورنر سے کوئی بھی سوال کر سکے‘ تحقیقات تو بہت دور کی بات ہے‘ اس قانون کے تحت اسٹیٹ بینک عالمی مالیاتی اداروں کو تمام معلومات دینے کا پابند ہوگا‘ چاہے اس کا تعلق ملک کے حساس معاملات کے ساتھ بھی کیوں نہ ہو‘ دراصل اب اسٹیٹ بینک اس آرڈیننس کے بعد ملکی آئین کی بندش سے مادرپدر آزاد ہو جائے گا۔