پاک بھارت تعلقات کیوں معمول پر نہیں آسکتے؟

408

یوں تو بھارت کے ساتھ تجارت کبھی بند نہیں ہوئی، غیر سرکاری سطح پر بے شمار چیزیں بھارت سے آرہی ہیں اور ہمارے بازار خاص طور پر پنساریوں کی دکانیں ان چیزوں سے بھری ہوئی ہیں لیکن معاملہ سرکاری سطح پر چینی اور کپاس درآمد کرنے کا تھا اس لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی سے باقاعدہ اس کی منظوری لی گئی، پھر اس کی سمری تیار کرکے اسے وفاقی کابینہ میں پیش کیا گیا جہاں دو تین وزیروں نے اس کی مخالفت کردی اور موقف یہ اختیار کیا کہ جب تک بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سازگار ماحول پیدا نہیں کرتا اور 5 اگست 2019ء کا ناجائز اقدام واپس نہیں لیتا اس کے ساتھ تجارت نہیں ہوسکتی۔ واضح رہے کہ بھارت نے 2 سال پہلے اس اقدام کے ذریعے اپنے آئین سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارتی یونین کا حصہ بنالیا تھا۔ اس پر کشمیریوں سمیت پاکستان اور او آئی سی نے بھی شدید احتجاج کیا تھا لیکن بھارت اپنی ضد پر قائم رہا اور اس نے مقبوضہ کشمیر میں احتجاج اور ہنگاموں کو روکنے کے لیے پورے علاقے کو لاک ڈائون کردیا۔ ذرائع ابلاغ پر پابندی لگادی اور انٹرنیٹ سروس بند کرکے پوری دنیا سے اہل کشمیر کا رابطہ منقطع کردیا۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس نے کشمیریوں سے ہمدردی رکھنے والی تمام قوتوں کو پریشان کردیا تھا اور ان کا تمام زور اس بات پر تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سے لاک ڈائون ختم کرے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو کشمیریوں تک رسائی دے۔ اس طرح بھارت نے بہت چالاکی اور عیاری کے ساتھ عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنے 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی، غیر اخلاقی اور سفاکانہ اقدام سے ہٹادی تھی۔ پاکستان بھی اُن قوتوں میں شامل تھا جو بھارت سے 5 اگست کی کارروائی واپس لینے کا مطالبہ کرنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر سے لاک ڈائون ہٹانے کا مطالبہ کررہی تھیں لیکن بھارت نے اس مطالبے کو بھی ایک کان سے سنا دوسرے کان سے اُڑا دیا اور اب بھی مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈائون کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔
اب یہ پہلا موقع ہے کہ وزیراعظم اور وفاقی وزرا کے بیانات میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کو واپس لینے کی شرط کو سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے۔ شاید یہ پیغام اُن برادر ملکوں کے لیے ہے جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے اور جن کی سفارتی کوششوں سے کنٹرول لائن (ایل او سی) پر جنگ بندی ممکن ہوئی ہے اور دونوں ملکوں کے قائدین نے خیر سگالی پیغامات کا تبادلہ کیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ برادر عرب ملکوں نے اپنے طور پر یہ کوشش نہیں کی بلکہ اس کے پیچھے نئی امریکی انتظامیہ کی خواہش کا عمل دخل ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے برعکس پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہتی ہے۔ برادر عرب ملکوں (سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات) کو مسئلہ کشمیر سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ ہی مظلوم کشمیری مسلمانوں سے کوئی ہمدردی ہے۔ البتہ وہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کو ضرور اپنے مفاد میں سمجھتے ہیں۔ اس طرح وہ امریکا کی شہہ پر پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے ہیں۔
پاکستان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ بھارت آگے بڑھے اور 5 اگست 2019ء کی ناجائز کارروائی کو واپس لے کر ماحول کو سازگار بنائے۔ اول تو بھارت کبھی اس بات پر آمادہ نہیں ہوگا کہ وہ 5 اگست 2019ء کی کارروائی واپس لے کر اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دے لیکن اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ وہ مصلحتاً ایسا کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو کیا مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بدل جائے گی۔ کیا وہاں سے قابض بھارتی فوجیں واپس چلی جائیں گی۔ کیا کشمیریوں کے انسانی حقوق بحال ہوجائیں گے۔ کیا کشمیری نوجوانوں کو پکڑنے اور جعلی مقابلوں میں انہیں مارنے کا سلسلہ رک جائے گا۔ کیا 5 اگست 2019ء کی کارروائی واپس لینے سے کشمیری عوام بھارت کا دم بھرنے لگیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال میں کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ اصل تنازع تو ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے غیر قانونی اور غاصبانہ قبضے کا ہے۔ جب تک یہ قبضہ ختم نہیں ہوتا، مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکتا اور مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر دونوں ملکوں کے تعلقات میں کبھی بہتری نہیں آسکتی۔ آج
کل اس تھیوری کا بہت چرچا ہے کہ عالمی سطح پر متعدد ممالک ایک دوسرے کے حریف ہیں لیکن ان کے درمیان معمول کے تعلقات بھی قائم ہیں، دوطرفہ تجارت بھی ہورہی ہے اور مختلف شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کررہے ہیں۔ اس سلسلے میں بھارت اور چین کی شکل دی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں میں سنگین سرحدی تنازع موجود ہے، خونریز جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں، چین نے بھارت کے کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں میں تجارت بھی ہورہی ہے اور دیگر معمول کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ اسی طرح چین اور امریکا کی دشمنی بھی ڈھکی چھپی نہیں لیکن دونوں ملکوں میں بڑے پیمانے پر تجارت بھی ہورہی ہے، پاکستان اور بھارت دیرینہ حریف سہی لیکن ان کے درمیان تجارت اور دیگر معمول کے تعلقات کیوں قائم نہیں ہوسکتے؟ جو لوگ یہ تھیوری پیش کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اصل رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے جو ایک قوم کے حق خودارادیت اور آزادی کا مسئلہ ہے جس میں پاکستان ایک اہم فریق کی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان اس مسئلے کو نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا بھی چاہے تو یہ اس کے لیے ممکن نہیں ہے، جو قوتیں عالمی سطح پر امن کا کھیل کھیل رہی ہیں انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے ہمارے وزیراعظم سعودی ولی عہد کی دعوت پر سعودی عرب جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہاں یقینا پاک بھارت تعلقات زیر غور آئیں گے، وزیراعظم کو کسی مداہنت کے بغیر یہ واضح کردینا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر حل ہوئے بغیر ہم ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتے۔