تدفین میں تاخیر

کسی شخص کا انتقال ہونے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں جلدی کرنا بہتر ہے۔ کسی قانونی مجبوری یا شرعی عذر کے بغیر تاخیر ناپسندیدہ ہے۔ متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جلد از جلد تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔ ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جنازے کو قبرستان لے جانے میں جلدی کرو۔ اگر مرنے والا نیک ہوگا تو بہتر ہے کہ اسے جلد پہنچا دو اور اگر ایسا نہ تو ایسے بْرے شخص کو جلد اپنے کندھے سے اتار دو‘‘۔ (بخاری، مسلم)
’جنازے کو جلدی لے جانے میں‘ دونوں باتیں شامل ہیں: اسے تیار کرنے کے بعد قبرستان لے جانے میں جلدی کرنا اور انتقال ہوجانے کے بعد اس کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا۔
ایک روایت میں ہے کہ طلحہ بن براءؓ بیمار ہوئے تو اللہ کے رسولؐ نے ان کی عیادت کی، پھر واپس ہوئے تو فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ ان کی موت کا وقت قریب آگیا ہے۔ جب ان کا انتقال ہوجائے تو مجھے خبر کرنا، تاکہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں‘‘۔ اس موقع پر آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اس کی تجہیز وتدفین میں جلدی کرو۔ اس لیے کہ کسی مسلمان کی نعش کے لیے مناسب نہیں کہ اس کو اس کے گھر والوں کے درمیان روک کر رکھا جائے‘‘۔ (ابو داؤد)
محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن اس کے شواہد موجود ہیں۔ اس بنا پر یہ حسن کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔
کسی شخص کے انتقال کے بعد بسا اوقات کوئی قانونی پیچیدگی آجاتی ہے، یا کسی نعش کی شناخت نہیں ہو پاتی۔ اس وجہ سے تدفین میں تاخیر ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر نعش کو کچھ مدت کے لیے سرد خانے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ شرعی طور پر اس کی گنجائش ہے۔
اسی طرح اس کی بھی گنجائش ہے کہ میت کا ولی مثلاً بیٹا یا شوہر یا کوئی دوسرا قریبی عزیز کہیں دور ہو اور وفات کی خبر پاکر اسے پہنچنے میں کچھ وقت لگ جائے تو اس کا انتظار کر لیا جائے، اگر اس کے آنے تک نعش کو خراب ہونے سے بچانے کا کوئی معقول نظم ہو۔ محدثین و فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے۔ علامہ مناویؒ نے لکھا ہے:
’’جنازہ قبرستان پہنچ جائے تو نمازیوں کی تعداد میں اضافے کے مقصد سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لیے کہ جنازے کو تدفین کے لیے جلدی لے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ہاں، ولی کا انتظار کر لینا مناسب ہے، اگر نعش میں تغیر پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو‘‘۔ (فیض القدیرشرح الجامع الصغیر)
شافعی فقیہ علامہ رملیؒ نے لکھا ہے: ’’ولی کا انتظار کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگر امید ہو کہ وہ جلد آجائے گا اور نعش تغیر سے محفوظ رہے‘‘۔ (نھایہ المنہاج)
اور حنبلی فقیہ شیخ نجم الدین الحرانیؒ نے لکھا ہے: ’’تدفین میں اتنی دیر تاخیر کرنی جائز ہے کہ میت کے اعزّا و اقربا، دوست احباب اور دیگر لوگ اکٹھا ہوجائیں، اگر انھیں زحمت نہ ہو اور نعش میں فساد پیدا ہوجانے کا اندیشہ نہ ہو‘‘۔ (الرعایۃ الکبریٰ)
میت کا کتنے گھنٹے تک انتظار کیا جا سکتا ہے؟ اس سلسلے میں کوئی متعین بات کہنی ممکن نہیں ہے۔ بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ تدفین میں بلا کسی خاص ضرورت کے تاخیر کرنا دینی اعتبار سے پسندیدہ نہیں ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو، تدفین کی کوشش کرنی چاہیے۔