پی ڈی ایم سیاسی “کومے” میں – شاہنواز فاروقی

457

پی ڈی ایم کا 17 مارچ کا اجلاس شروع ہوا تو پی ڈی ایم کی عمر 6 ماہ تھی، مگر وہ 60 سال کے بوڑھے کی طرح ہانپ اور کانپ رہی تھی۔ اجلاس کے بعد ملک کے کئی اہم لکھنے والوں نے پی ڈی ایم کو مرحوم قرار دیا۔ بعض لوگوں نے پی ڈی ایم کے انتقال کا اعلان کیا۔ یہ سب سیاسی قیاس آرائیاں ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ’’پی ڈی ایم‘‘ سیاسی کوما میں چلی گئی ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ وہ اس سیاسی کومے سے نکل نہیں سکے گی اور وینٹی لیٹر پر پڑے پڑے دارِ فانی سے کوچ کرجائے گی۔

پی ڈی ایم کا 17 مارچ کا اجلاس پی ڈی ایم کے لیے اتنا تباہ کن تھا کہ اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمٰن پریس کانفرنس میں گفتگو ہی نہ کرسکے۔ مولانا فضل الرحمٰن گفتگو کے اتنے شائق ہیں کہ انہیں آسانی کے ساتھ ’’مولانا باتونی‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر اجلاس کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میں مولانا باتونی گونگے کا گڑ کھا کر آئے ہوئے تھے، چنانچہ ان کی ’’پریس کانفرنس‘‘ ایک منٹ پندرہ سیکنڈ پر ’’محیط‘‘ تھی۔ مولانا مائیک پر آئے اور فرمایا کہ ’’آج پی ڈی ایم کا اجلاس لانگ مارچ کے حوالے سے تھا۔ میاں نوازشریف، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ لانگ مارچ کے ساتھ استعفوں کو وابستہ کرنے کے حوالے سے 9 جماعتیں اس کے حق میں ہیں، جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اس سوچ پر تحفظات ہیں۔ پیپلزپارٹی نے وقت مانگا ہے کہ ہم اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے رجوع کرنا چاہتے ہیں، اس کے بعد ہم پی ڈی ایم کو اپنے فیصلے سے آگاہ کریں گے۔ لہٰذا ہم نے انہیں موقع دیا ہے اور ہمیں ان کے فیصلے کا انتظار ہوگا، تب تک 26 مارچ کا لانگ مارچ ملتوی تصور کیا جائے گا۔‘‘

مولانا نے یہ کہا اور نیوز کانفرنس سے چلے گئے۔ اُن میں اتنی ہمت نہ تھی کہ صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے۔ عام طور پر جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، مگر مولانا کے سر پر پی ڈی ایم کا سیاسی کوما سوار تھا۔ اس کے شور میں مولانا کی قوتِ گویائی دب کر رہ گئی۔ لیکن یہ تو مولانا کا قصہ تھا۔ اجلاس کی ہنگامہ خیزی بھی کم نہ تھی۔

اجلاس سے آصف علی زرداری نے ایک ’’انقلابی‘‘ کی طرح خطاب فرمایا۔ آصف علی زرداری نے منتخب ایوانوں سے استعفوں کو میاں نوازشریف کی ملک واپسی سے مشروط کردیا۔ انہوں نے کہا: ’’میاں صاحب پلیز واپس آجائیں، اگر تحریک کو کامیاب کرانا ہے تو ہم سب کو مل جل کر جیل جانا ہوگا۔ ہم نے پہلے بھی 14 سال تک جیل کاٹی ہے۔ میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ڈرتا۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونی چاہیے۔ اگر جنگ کے لیے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو یا تحریک عدم اعتماد، آپ کو واپس آنا ہوگا‘‘۔ آصف علی زرداری نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں، میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر میرا ڈومیسائل مختلف ہے، ہم آخری سانس تک جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔ آپ اسحاق ڈار کوواپس لے آئیں، ہم آپ کے پاس اپنے استعفے جمع کرا دیں گے۔ اسحاق ڈار تو سینیٹ کا ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران کو مضبوط کرنا ہے۔ ایسے فیصلے نہ کیے جائیں کہ ہمارے راستے جدا ہوجائیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی جمہوری پارٹی ہے۔ ہم پہاڑوں پر نہیں، پارلیمان کے اندر رہ کر لڑتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پہلی بار نہیں کہ جمہوری قوتوں نے دھاندلی کا سامنا کیا ہو۔

آصف علی زرداری کا خطاب نواز لیگ اور پی ڈی ایم کے لیے اتنا تباہ کن تھا کہ مریم نواز کو بولنا پڑا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد کو جان کا خطرہ ہے، وہ وطن واپس کیسے آئیں! آپ ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میاں صاحب کو قاتلوں کے آگے نہیں ڈال سکتے۔

آصف علی زرداری کے خطاب سے کئی حقائق عیاں ہیں۔ پہلی حقیقت تو یہ عیاں ہے کہ ان کی جماعت کسی قیمت پر استعفوں کی سیاست کے لیے تیار نہیں ہے۔ آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ نظام میں نواز لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کا کوئی ’’اسٹیک‘‘ ہی نہیں ہے، چنانچہ استعفوں اور لانگ مارچ سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا تو سندھ کا اقتدار پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل جائے گا، اور یہ بہت بڑا سیاسی اور معاشی نقصان ہوگا۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں رہی کہ آصف علی زرداری ملک میں برپا کشمکش کو سندھ اور پنجاب کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو وہ میاں نوازشریف اور اپنے ڈومیسائل کے مختلف ہونے کی بات نہ کرتے۔ ہمیں یاد ہے کہ آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ قبل فوج کے خلاف ایک سخت بیان دیا تھا، مگر بیان کے اگلے ہی روز انہیں دبئی بھاگنا پڑا تھا۔ اس کے برعکس میاں نوازشریف کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ مہم چلا رہے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کو ’’خلائی مخلوق‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ وہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کا نام لے کر اُن پر الزامات عائد کررہے ہیں، مگر میاں صاحب بھی محفوظ ہیں، ان کی بیٹی بھی محفوظ ہیں اور نواز لیگ بھی محفوظ ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ وہ استعفوں کے مسئلے پر اپنی مجلس عاملہ سے مشورہ کرے گی، مگر آصف علی زرداری کے خطاب کی ’’انقلابیت‘‘ سے ظاہر ہے کہ اوّل تو پیپلزپارٹی کی مجلس عاملہ کا اجلاس جلد ہونے والا نہیں۔ ہو بھی گیا تو مجلس عاملہ استعفوں اور لانگ مارچ کے خلاف مشورہ دے گی۔ ویسے پیپلزپارٹی میں اصل مجلس عاملہ تو ’’بھٹو خاندان‘‘ ہی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی مجلس عاملہ کو درمیان میں لاکر صرف وقت گزار رہی ہے اور حجت تمام کررہی ہے۔ وہ عملاً ’’پی ڈی ایم‘‘ کے ’’سیاسی کوما‘‘ کا علاج نہیں کررہی، بلکہ اس کے سیاسی کوما کو اور گہرا کررہی ہے تاکہ پی ڈی ایم کی موت واقع ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم کی سیاست سے جو کچھ حاصل کرنا تھا وہ کیا جاچکا۔ آصف علی زرداری کے خطاب کو دیکھ کر کوئی بھی یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے پی ڈی ایم کی سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے گہرے کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ شریف خاندان بھی یہی کررہا ہے۔ وہ بظاہر استعفوں اور لانگ مارچ کی بات کررہا ہے، مگر اس کا مقصد اسٹیبلشمنٹ سے اپنے لیے بہتر سے بہتر ڈیل حاصل کرنا ہے۔ یہ حقیقت راز نہیں ہے کہ حمزہ شہباز کی ’’ضمانت‘‘ ہوچکی ہے، اور میاں شہبازشریف بھی ’’رہا‘‘ ہوا چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان مریم نواز کو اپنے والد کے پاس لندن جانے دیں، مگر عمران خان ابھی تک اس کی مزاحمت کررہے ہیں۔ کہنے کو نواز لیگ استعفوں کی بات کررہی ہے، لیکن خود نواز لیگ میں ایک دھڑا استعفوں کی سیاست کو اپنے اور پارٹی کے لیے خطرناک سمجھتا ہے۔ یہ دھڑا سوال اٹھاتا ہے کہ اگر ہم نے استعفے دے دیے اور حکومت نے خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرا دیے تو کیا ہوگا؟ یہ دھڑا سوال اٹھاتا ہے کہ انتخابات کی صورت میں ہمارے لیے دو ہی امکانات ہوں گے، ایک یہ کہ ہم انتخابات کا بائیکاٹ کریں، اور دوسرا یہ کہ ہم انتخابات میں حصہ لیں۔ ہم نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو ہم منتخب ایوانوں سے مکمل طور پر باہر ہوجائیں گے، اور اگر انتخابات میں حصہ لیا تو ہمارا استعفے دینے کا فعل ایک کارِ عبث بن کر رہ جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ موجودہ سیاسی منظرنامے میں پی ڈی ایم کیوں ناکام نظر آرہی ہے؟

پاکستان میں جتنی بھی مؤثر سیاسی تحریکیں چلی ہیں ان کا کوئی نہ کوئی نظریہ تھا۔ بھٹو مقبول رہنما تھے مگر ان کے خلاف پی این اے کی تحریک تباہ کن ہوتی چلی گئی۔ اس لیے کہ اس تحریک کا تشخص نظام مصطفیٰ بن گیا تھا۔ چنانچہ اس تحریک میں لوگوں کی شمولیت بھی بہت بڑھ گئی تھی اور عوام کا جوش و جذبہ بھی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ بدقسمتی سے پی ڈی ایم کا کوئی نظریہ ہی نہیں ہے۔ پی این اے کی تحریک کی ایک قوت اس کی بھٹو سے نفرت تھی۔ پی ڈی ایم ایک بڑا سیاسی اتحاد ہے اور اس کی عوامی بنیاد بھی موجود ہے، مگر وہ عمران خان کے خلاف عوام میں نفرت پیدا نہیں کرپایا ہے۔ پی ڈی ایم کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں شامل بڑی جماعتیں ’’عوامی مزاحمت‘‘ کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ میاں نوازشریف بلاشبہ پنجاب میں مقبول ہیں، مگر پنجاب کے لوگ انہیں نوٹ دے سکتے ہیں، ووٹ دے سکتے ہیں، مگر ان کے لیے سڑکوں پر نکل کر ڈنڈے نہیں کھا سکتے، گولیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، ان کے لیے جیل نہیں بھر سکتے۔ نواز لیگ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک ’’خاندانی پارٹی‘‘ ہے، اس کی کوئی ’’جمہوری‘‘ یا ’’عوامی‘‘ بنیاد ہی نہیں۔ چنانچہ وہ کبھی بھی اسٹیلبشمنٹ کی کامیاب مزاحمت نہیں کرسکتی۔ وہ مزاحمت کرتی بھی ہے تو ’’ڈیل‘‘ کے لیے، نظام بدلنے کے لیے نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام واقعتا بدل گیا تو اس میں صرف اسٹیبلشمنٹ کی نہیں، خود شریفوں اور نواز لیگ کے لیے بھی کوئی جگہ نہ ہو گی۔ پی ڈی ایم کی ناکامی کی ایک وجہ ملک میں میاں نوازشریف کی غیرموجودگی ہے۔ میاں نوازشریف پی ڈی ایم کے ’’اسٹار بیٹسمین‘‘ ہیں، مگر وہ ملک سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ کیا موجودہ سیاسی منظرنامے میں ملک کسی بڑی سیاسی تبدیلی کی طرف جاتا نظر آرہا ہے؟

یہ حقیقت راز نہیں کہ عمران خان کی حکومت ہر دائرے میں ناکامی کا منظر پیش کررہی ہے۔ وہ غربت اور مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ مہنگائی کبھی برسوں اور مہینوں کی بنیاد پر بڑھتی تھی، اب ہفتوں کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ عمران خان اب تک اپنے انتخابی وعدوں میں سے کوئی وعدہ وفا نہیں کرسکے۔ وہ نہ دو کروڑ نوکریاں دے سکے ہیں، نہ 50 لاکھ گھر بنا کر دے سکے ہیں۔ اب تک عمران خان کی ناکامی صرف عمران خان کی ناکامی تھی، مگر ڈھائی سال بعد عمران خان کی ناکامی نظام کی ناکامی بن چکی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو تبدیل کرنا چاہتی ہے مگر عمران خان اس کے لیے تیار نہیں۔ چنانچہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے درمیان بھی تعلقات ’’مثالی‘‘ نہیں رہے۔ اس تناظر میں ملک میں ’’قومی حکومت‘‘ اور ’’ٹیکنوکریٹس کی حکومت‘‘ کی افواہیں گردش کررہی ہیں۔ مریم نواز نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ’’سلیکٹڈ‘‘ کا ’’متبادل‘‘ تلاش کیا جارہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ مریم کا یہ تجزیہ محض ان کی ’’خواہش‘‘ تھا، مگر اب اس تجزیے میں ’’واقعیت‘‘ در آئی ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ عمران خان نے مزید ڈیڑھ دو ماہ میں اپنی حکومت کی کارکردگی بہتر نہ کی تو حالات ان کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔

(This article was first published in Friday Special)