آئی ایم ایف کی غلامی سے موت بہتر ہے

828

انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ کے قیام کا مقصد تیسری دُنیا کے ملکوں کی بالعموم اور مسلمان ملکوں کی معیشت کو بالخصوص قرضوں کے وسیع و عریض چنگل میں پھنسا کر تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر پہنچا کر دم لینا ہے اور اس سلسلے میں ان ملکوں کے کرپٹ اور عیاش حکمران مل جاتے ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر ضمیر فروش ہو جاتے ہیں اور بالآخر ان کا انجام فلپائن کے سابق صدر مارکوس، مصر کے سابق صدر حسنی مبارک، لیبیا کے سابق صدر کرنل معمر قذافی، روانڈا کے سابق صدر جیسا ہوتا ہے کہ عوام انہیں صدارتی محلوں سے گھسیٹ کر کتے کی موت دیتے ہیں لیکن ان سب مثالوں کے باوجود لوگوں کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں اور وہ دیدہ و دانستہ تباہی کے راستے پر گامزن ہو جاتے ہیں۔
1980ء میں افغانستان میں روسی مداخلت اور طویل جنگ کے نتیجے میں روسی فوجوں کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ سنگین معاشی بحران کی وجہ سے روس جو دنیا کی دوسری ایٹمی طاقت تھا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور روس سے 6 وسطی ایشیائی ریاستیں بھی علٰیحدہ ہو گئیں تھیں اور روس میں سخت اقتصادی بحران کی وجہ سے فوجیوں کو تنخواہ تک ادا کرنا مشکل ہو گیا تھا اور 6 ماہ کی تنخواہ کے بجائے فوجیوں کو تربوز پکڑائے گئے تھے جس کی تصاویر پوری دنیا میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں جاری کی گئیں تھیں۔ روس کو دوبارہ معاشی طور پر مستحکم کرنے میں یورپین ممالک کا بڑا ہاتھ ہے کیونکہ روس کے پاس تیل اور گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں جس کی وجہ سے بحیرہ کیسپین میں بڑے تیل کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور اب روس مزید طاقتور ہو گیا ہے۔ پاکستان میں اللہ کے فضل و کرم سے سندھ، بلوچستان، پختون خوا اور شمالی وزیرستان میں نہ صرف تیل کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں بلکہ گیس، سونا، چاندی، جپسم، کوئلہ، ہیرے جواہرات، ریکوڈک پروجیکٹ اور سیندک میں کاپر دریافت ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی کرپٹ سول بیوروکریسی جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں سخت ترین رکاوٹ ہے اور کرپٹ سیاستدانوں نے خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایا تھا اور غیر ممالک جس میں چین اور دوسرے ممالک کے ماہرین ان سے استفادہ کر رہے ہیں اور صوبہ بلوچستان اپنوں کے غیر انسانی سلوک اور رویوں کی وجہ سے اور باغی بلوچ لیڈروں کی زہرافشانی کی وجہ سے اور بین الاقوامی طاقتوں، امریکا، اسرائیل، بھارت اور افغانستان بلوچستان میں سنگین مداخلت کر رہے ہیں۔
یوں لگ رہا ہے جیسے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک کے قرضوں سمیت اسٹیٹ بینک کے قرضوں سے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت اور ڈوبتی چلی جائے گی اور رہی سہی کسر بھارت کی آبی جارحیت نے پوری کر دی ہے اور پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت اسے روانڈا نہ بنا دے، پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کرنے کے لیے امریکا کے یہودیوں نے آئی ایم ایف کے ایجنٹ شوکت عزیز کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پاکستان بھیجا تھا جن کی مہربانیوں سے بعض سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ عہدیداران، بیوروکریسی کے ریٹائرڈ افسران و ارکان پارلیمنٹ نے اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے، پاکستان کی زراعت ناکام، صنعتی اداروں کی کارکردگی ناقص، دراصل اس وقت پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں حصہ لینے کی وجہ سے اربوں ڈالرز کی سالانہ امداد امریکا اور ناٹو کے ممالک سے مل رہی تھی اور بظاہر کام چل رہا تھا۔ اور پاکستان میں ان 8 سال میں کوئی نیا ڈیم نہیں بنا تھا۔ پرویز مشرف نے اپنی چالاکی کے ذریعے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان کو لبرل اور سوشل ملک بنانا چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف معیشت کی الف ب سے بھی واقف نہیں تھے اور ان کی اس ناواقفیت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے شوکت عزیز نے 2000ء میں وزارت خزانہ میں اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ تعینات کیا تھا جو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کو پاکستانی معیشت کے بارے میں من گھڑت اور جعلی اعداد و شمار پیش کرتے تھے اور اس جعلسازی کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جلد ہی پکڑ لیا تھا اور پاکستان پر 38 ملین ڈالرز کا جرمانہ بھی لگایا تھا جو حکومت پاکستان کو ادا کرنا پڑا تھا اور اس کا انکشاف ایک سال قبل جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف نے ٹی وی پر انٹرویو کے دوران کیا تھا۔
پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتا مافیا کی وجہ سے 22 ہزار سے زیادہ کارخانہ دار سخت پریشان ہیں۔ پاکستان پر دہشت گردی کا سنگین الزام ہے پاکستان کی برامدات میں مسلسل خسارہ ہو رہا ہے۔ زراعت فیل ہے بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور صنعتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کافی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے نت نئے ٹیکس اور آئی ایم ایف کے اشارے پر بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا تھا ملک کا ہر شخص مع معصوم بچوں کے دو لاکھ روپے سے زیادہ کا قرض دار ہے اور 15 دِن میں ایک ارب ڈالرز خرچ ہو جاتے ہیں اور غیر ملکی قرضوں کی بھرمار ہے۔
ملکی معیشت بُری طرح ناکام ہو چکی ہے اور موجودہ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ بالکل ناکام ہو چکے ہیں۔ معیشت بالکل ڈوب چکی ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے جان بوجھ کر روپے کی قیمت گرائی ہے اور ڈالر پاکستان کے 165/- روپے کے برابر ہو گیا ہے۔ سرمایہ داروں کے کھربوں روپے ڈوب گئے ہیں۔ زبردست مہنگائی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی بحران کے ساتھ گیس اور بجلی کا بحران بھی ہے۔ پاکستان کی صنعتیں تباہی کے دہانے پر ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی اور معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ دوسری طرف وفاقی مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیح نے اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نیپرا کی سفارشات پر پچھلی تاریخوں میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر دیا ہے اور چیئرمین اوگرا کی سفارشات پر گیس ڈیویلپمنٹ سرچارج کی مد میں اربوں روپے کی وصولی کے لیے گیس میٹر کا کرایہ ڈبل کر دیا ہے۔ پاکستان کے آئین 1973 میں صاف ہدایتیں موجود ہیں کہ کوئی بھی ٹیکس یا ڈیوٹی بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے عوام پر نافذ نہیں کی جا سکتی ہے۔ یوں دیکھا جائے تو ڈاکٹر عبدلاحفیظ شیخ ایک غیر آئینی عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے عہدے کا حلف نہیں اُٹھایا ہے وہ پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ 2019-20 میں وفاقی مشیر خزانہ تعینات ہوتے ہی انہوں نے پاکستان کی مکمل اقتصادی و معاشی صورتحال عالمی اداروں کے حوالے کردی۔ عبدالحفیظ شیخ اتنے بااختیار اور طاقتور شخص ہیں کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اپنے قریبی عزیز نوید شیخ کو نیپرا میں ڈائریکٹر لگوایا ہے جو کرپشن میں ملوث ہے۔
25 جولائی 2018ء کو پورے پاکستان کے عوام نے بالعموم اور کراچی کے عوام نے بالخصوص وزیر اعظم پاکستان کے بلند و بانگ نعروں سے متاثر ہو کر پاکستان تحریک ِ انصاف کو ووٹ اس لیے دیے تھے کہ وہ پُراُمید تھے کہ عمران خان کی قیادت میں نہ صرف پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوگا بلکہ مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام 72 سال سے بھارتی فوج کی درندگی کا انتہائی بہادری اور جرأت سے مقابلہ کر رہے ہیں انہیں بھارت کی غلامی سے آزادی بھی نصیب ہوگی لیکن بدقسمتی سے ساری اُمیدیں خاک میں مِل گئی ہیں۔ تحریک ِ انصاف کے تمام دعوے ہوا میں اُڑ گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے عوام سخت معاشی بحران میں مبتلا ہیں۔ اشیائے خور ونوش اتنی مہنگی ہو گئی ہیں کہ عام آدمی کی پہنچ سے کوسوں دور ہے غربت 100 فی صد بڑھ گئی ہے۔ ہر مہینے آئی ایم ایف کی شرائط کو پوار کرنے کے لیے بجلی، پٹرول اور گیس کے نرخوں میں بِلا جواز اور بے مقصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے نادان دوست وفاقی وزراء اور مشیر جعلی اعداد و شمار کے ماہر ہونے کے ناتے ایسی خوشنما اور خوش کن معیشت کی تصویریں پیش کرنے میں مصروف ہیں کہ پاکستانی معیشت ترقی کی طرف گامزن ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی کل برامدات 3 ارب 75 کروڑ ڈالرز ہیں جبکہ درامدات 800 ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں۔ موجودہ وفاقی حکومت نے تقریباً 30 ہزار ارب روپے قرض ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک سے لیے ہیں۔ آئی ایم ایف کیونکہ بین الاقوامی یہودی سود خوروں کا ادارہ ہے اس کو امریکی سی آئی اے اور اسرائیلی سیکرٹ سروس موساد نے خفیہ ٹاسک دیا ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر اتنا تباہ و برباد کر دو کہ اس کا حشر بھی افریقی ملک روانڈا کی طرح ہو جائے جہاں روٹیوں کی خاطر 10 لاکھ افراد جس میں خواتین، بوڑھے مرد، جوان اور بچے قتل کر دیے گئے تھے۔
مصر کی تباہی بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے مصر کو معاشی طور پر تباہ و برباد کرنے میں ڈاکٹر رضا باقر موجودہ گورنر اسٹیٹ بینک سابق آئی ایم ایف کے کنٹری ایڈوائزر مصر کا 100 فی صد کردار ہے جس سے وہ انکار نہیں کر سکتے ہیں اب انہیں آئی ایم ایف نے ڈرامائی طور پر پاکستان بھیج دیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ آئی ایم ایف کے ایجنٹ ہیں اور اگر مزید دو سال تک پاکستان میں رہے تو پاکستان کی معاشی تباہی و بربادی یقینی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام نہ صرف ختم کر دیا جائے گا بلکہ پاکستان کو بلیک میل کیا جائے گا کہ وہ اپنا ایٹمی پروگرام بند کر دے۔ بھارت کی بالادستی تسلیم کرے اور مقبوضہ کشمیر سے 1948 میں جہاد کے ذریعے آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان بشمول سیاچین سے پاکستانی فوجیں واپس بلا کر بھارت کے حوالے کرنے تک کی بات کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کو آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالرز کی قسط لینے کے لیے ان کی سب سے بڑی شرط اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو سرکاری تحویل سے نکال کر خود مختار ادارہ بنانے کی تسلیم کرتے ہوئے صدارتی آرڈیننس جاری کر دیا ہے وہ پاکستان کو تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر پہنچا دے گا جبکہ مشہور ماہر معاشیات محترم قیصر بنگالی نے پاکستان کے خدانخواستہ ٹکڑے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ ایسی کیا مجبوری اور لاچارگی ہو گئی ہے کہ آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالرز کی قسط نہ لیں اور صدارتی آرڈیننس منسوخ کر دیں کیونکہ اس آرڈیننس کے نفاذ کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان وائسرائے پاکستان بن جائیں گے اور احتساب سے بالاتر ہوں گے جبکہ وزیر اعظم پاکستان احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت احتساب سے بالاتر نہیں ہیں۔