پی ٹی آئی کی خوش فہمی اور پی ڈی ایم کا مستقبل

662

پی ڈی ایم کے گزشتہ اجلاس میں آصف زرداری نے جو دھماکا کیا ہے اس کے آفٹر شاکس ابھی تک محسوس کیے جارہے ہیں۔ پی ٹی آئی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئی ہے کہ پی ڈی ایم ختم ہوگئی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہوا کہ مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاستداں بھی میڈیا اور پوری قوم کے سامنے اپنا ٹمپر لوز کر بیٹھے، جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ 26مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہوگیا ہے، پی پی پی نے مہلت مانگی ہے کہ وہ اپنی سی ای سی کے اجلاس میں استعفوں کے آپشن پر دوبارہ غور کریں گے پھر پی ڈی ایم کے سامنے اپنی پارٹی کا موقف رکھیں گے۔ ایک ڈیڑھ منٹ میں مولانا یہ بات کہہ کر پریس کانفرنس سے شدید غصے میں چلے گئے جبکہ مریم نواز انہیں آواز دیتی رہ گئیں۔ مولانا مجموعی طور پر ٹھنڈے مزاج کے سیاستداں ہیں وہ صحافیوں کے سخت سے سخت سوالات کے جواب بھی بڑی دلاویز مسکراہٹ کے ساتھ دیتے ہیں لیکن یہاں پر وہ بجھے بجھے سے لگ رہے تھے۔
اس سارے پس منظر میں ایک سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے کہ کیا لانگ مارچ استعفے دیے بغیر نہیں ہو سکتا تھا ایسی صورت میں پی پی پی بھی بھرپور انداز میں ساتھ دیتی اور اس لانگ مارچ کا کوئی نہ کوئی منطقی نتیجہ تو سامنے آتا۔ ایک چیرمین سینیٹ کی شکست کے علاوہ پی ڈی ایم نے حکومت کے خلاف کئی سیاسی کامیابیاںحاصل کی تھیں اور اس کا سیاسی امیج بلندیوں پر تھا۔ مولانا یہ تجویز تھی کہ پہلے اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں پھر لانگ مارچ شروع کیا جائے، استعفوں کے حوالے سے پی پی پی کے تحفظات دور کرنے کے لیے درمیان کی یہ راہ نکالی گئی کہ پہلے قومی اسمبلیوں سے استعفے دیے جائیں۔ اس پر پی پی پی کی شاید کوئی تیاری نہیں تھی اور اس کا اس حوالے سے کوئی ہوم ورک نہیں ہوا تھا ان کے ارکان قومی اسمبلی بھی تیار نہیں تھے۔ ن لیگ کو بھی تھوڑی بہت مشکل پیش آتی لیکن مولانا تو بالکل تیار تھے، مولانا نے یہ نہیں سوچا کے کروڑوں روپے خرچ کرکے رکن بنتے ہیں وہ اتنی آسانی سے کیسے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے۔ پی پی پی کو ایک انجانا خوف یہ بھی رہا ہوگا کہ اگر پی ڈی ایم نے قومی اسمبلی کے ارکان کے استعفے اسپیکر کو دے دیے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ وفاقی حکومت سندھ میں یہ کہہ کر گورنر راج لگا دے کہ ایسا نہیں ہوسکتا کے ایک پارٹی حکومت کے خلاف ایجی ٹیشن بھی کرے اور وہ حکومت میں بھی شامل رہے۔
اگر استعفوں کے آپشن کو بالکل آخر میں رکھتے جیسا کہ پی پی پی کی اور مجموعی طور پر پی ڈی ایم کی رائے بھی کسی حد تک یہی بن چکی تھی، پی ڈی ایم لانگ مارچ کا آغاز کر دیتی تو کسی نہ کسی مرحلے پر حکومت سے تصادم ہوتا جو کس نوعیت کا ہوتا پہلے سے تو کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتا تھا لیکن کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ممکن ہے کہ حالات ازخود اس نہج پر پہنچ جاتے کے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو استعفوں کے ہتھیار کو استعمال کرنا پڑتا۔ پہلے استعفے کی شرط لگا کر مولانا نے خود پی ڈی ایم کو توڑنے کا راستہ اپنایا، جملہ معترضہ کے طور پر ایک بات یہ بھی سامنے آچکی تھی جس کا ذکر معروف تجزیہ نگار ہارون رشید نے اپنے پروگرام مقابل میں کیا کہ آصف زرداری کو ایک ایسی وڈیو دکھائی گئی جس میں نواز شریف اسحاق ڈار مریم نواز اور دیگر ن لیگی آپس کی بات چیت میں آصف زرداری کا مذاق اڑا رہے تھے۔ زرداری صاحب کو اس پر بھی غصہ تھا اور اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ن لیگ نے اپنے سات ووٹ ضائع کروا کے یوسف رضا گیلانی کی شکست کی راہ ہموار کی انہیں فوری طور پر اس کا بدلہ تو لینا تھا، چنانچہ انہوں نے استعفوں کے حوالے سے یہ شرط لگائی کہ نواز شریف اسحاق ڈار کے ساتھ ملک میں واپس آئیں ہم ان کے ہاتھ میں اپنے استعفے رکھ دیں گے اس کا مطلب یہ نہیں تھا، آصف زرداری کو مولانا فضل الرحمن پر اعتماد نہیں تھا بلکہ یہ شرط انہوں نے اس لیے لگائی کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
عنایت علی خان کا ایک شعر ہے کہ: ’’حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا … لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر‘‘۔ اگر یہ ساری باتیں اجلاس کے اندر ہوتیں اور میڈیا پر اس کے ٹکر نہ چل رہے ہوتے تو مولانا اور اچکزئی جیسے سینئر سیاستدان اس معالے کو سنبھال لیتے اور ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر نہ پھوٹتی۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ ایک طرف حکومت اور پی ٹی آئی والے خوشیاں منارہے ہیں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گئی بلکہ اس کی تدفین بھی ہوگئی اس طرح تحریک انصاف کی حکومت کے لوگ اس کے کارکنان خوش فہمی کی انتہائوں پر چلے گئے ہیں کہ جیسے اب ان کے سامنے کی بڑی رکاوٹ ختم ہو گئی ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی، ناکامیاں اتنی زیادہ ہیں اور یہ کہ روزانہ کے حساب سے مہنگائی نے عوام کو نان ِ شبینہ کا محتاج کردیا ہے، لوگ اتنے تنگ آگئے ہیں کہ خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں بے روزگاری میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے یہ تو سمجھیے کہ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی حماقتوں نے آپ کو موقع دیا ہے کہ آپ اپنی گورنس کو بہتر کرلیں ملک میں مہنگائی کے جن پر قابو پائیں اور اپنی ساری توجہ اپنی اور اپنی ٹیم کی کارکردگی پر رکھیں، جزا و سزا کا بھی اہتمام کریں کہ جو وزیر اچھی کارکردگی دکھائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے جو مطلوبہ کارکردگی نہ دکھا سکیں انہیں تبدیل کردیا جائے اور جن کے خلاف کرپشن کی شکایت آئے تحقیقات سے وہ درست ثابت ہو جائے تو ان کا احتساب کیا جائے۔ بہرحال حکومت یہ سمجھے کہ پی ڈی ایم میں اب جان نہیں رہی حکومت کی نااہلیوں سے اس میں دوبارہ جان پڑسکتی ہے اور آپ کے لیے یہ ایک مصیبت نہ بن جائے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم کے رہنما بھی مایوسی کی انتہا پر جاتے ہوئے لگتے ہیں ایک دو روز پہلے میں مریم نواز کا بڑا غصے سے لبریز جلا کٹا بیان دیکھ رہا تھا جس میں صحافیوں سے مخاطب تھیں اور ہاتھ پیر توڑنے کی بات کررہی تھیں ان کی گفتگو سے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ پی ڈی ایم میں آصف زرداری نے جو جھگڑا کھڑا کردیا ہے اس نے مریم نواز پر اعصابی اور نفسیاتی طور بڑے منفی اثرات ڈالے ہیں۔ پی پی پی کا سیاسی سفر قومی جماعت کے اسٹیج سے صوبائی جماعت کی طرف جارہا تھا پی ڈی ایم نے اسے دوبارہ قومی دھارے کا حصہ بنادیا ہے۔ اس لیے پی پی پی کا پی ڈی ایم چھوڑنا خود پی پی پی کے لیے پی ڈی ایم سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس لیے پی پی پی کا پی ڈی ایم میں رہنا ہی زیادہ مفید ہے اس لیے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی پی پی کو ہی قربانی دینا ہو گی۔