پہلے یومِ پاکستان کی چند جھلکیاں

455

مارچ 1940 ۔۔۔ مسلم لیگ، پاکستان اور برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری دن ہے ،آل انڈیا مسلم لیگ کا 34واں سالانہ اجلاس 22 سے 24 مارچ 1940 کو منٹو پارک میں منعقد ہوا جسے آج کل گریٹراقبال پارک کہا جاتا ہے ۔
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 2تا3جولائی کے اپنے اجلاس میں 28تا 30دسمبر 1939ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی منظوری دی تھی مگر بروقت انتظامات مکمل نہ ہو سکنے کی بنا پر 22 اکتوبر 1939ء کو اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ بعد ازاں 2جنوری 1940ء کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ اجلاس کا انعقاد 22 تا 24مارچ کیا جائے گا۔
مسلم لیگی رہنماؤں نے اجلاس کے لیے لاہور کے منٹو پارک کا انتخاب کیا مگر حکام اس حوالے سے اجازت دینے سے انکاری رہے ۔ بالآخر جب دباؤ بڑھ گیا تو 5 ہزار زرِ ضمانت کے عوض مشروط اجازت مل گئی۔
اجلاس سے 3روز پہلے 19مارچ کو لاہور کے بھاٹی دروازے میں خاکسار تحریک کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان تصادم ہوا۔ اس دوران ایک ’’گورا افسر‘‘ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد پولیس نے لاہور پر دھاوا بول دیا اور چن چن کر خاکسار تحریک کے کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں 50 کارکن شہید ہو گئے ۔
قائد اعظم اجلاس کی صدارت کے لیے 21 مارچ کو لاہور پہنچے تو پہلے سیدھے میو اسپتال گئے جہاں انہوں نے خاکسار تحریک کے کارکنوں کی عیادت کی۔ اس موقع پر انہوں نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ اس اجلاس میں ایک تاریخ ساز فیصلہ کرے گی اور یہ بات آگے جا کر حقیقت ثابت ہوئی۔اسی دن قائداعظم نے پنڈال میں مسلم لیگ کا پرچم لہرایا اور لیگی کونسل کے اجلاس کی صدارت کی۔
جمعہ 22 مارچ کو جمعے کی نماز کے بعد اجلاس کا آغاز ہوا۔ اسی روز ’’میاں بشیراحمد‘‘ کی نظم ’’ملت کا پاسبان ہے ، محمد علی جناح‘‘ بھی پڑھی گئی۔ برصغیر کے کونے کونے سے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں نے اجلاس میں شرکت کرکے آزادی اور ایک الگ وطن کے قیام کے لیے قرارداد منظور کی۔
قائد اعظم نے اردو اور انگریزی زبان میں ایک تقریر کی۔
را ت نواب ممدوٹ کی رہائش گاہ پر مسلم لیگی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں نوابزادہ لیاقت علی خان، ملک برکت علی اور نواب محمداسماعیل خان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ قرارداد کا ڈرافٹ تیار کریں۔
اگلے دن 23 مارچ بروز ہفتہ اجلاس کی دوسری نشست میں قائد اعظم کی ہدایت پرشیر بنگال ’’اے کے فضل حق‘‘ نے قرارداد کا مسودہ پیش کیا۔ پہلے یہ مسودہ مولانا ظفر علی خان نے پیش کرنا تھا مگر قائد اعظم نے یہ فیصلہ کیا کہ فضل حق مسودہ پیش کریں گے ۔ چودھری خلیق الزمان نے اس مسودے کی تائید کی۔
اس کے بعد مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب اور سر عبداللہ ہارون نے اس قرارداد کے حق میں تقاریرکیں۔
اگلے روز اتوار 24 مارچ کے دن اجلاس میں اس قرارداد پر بحث ہوئی۔ نواب اسماعیل، قاضی عیسیٰ، عبدالحمید خان، آئی آئی چندریگر، سید عبدالرؤف شاہ، ڈاکٹر محمد عالم، سید ذاکر علی، بیگم محمد علی جوہر اور مولانا عبدالحامد بدایونی نے خطاب کیا۔
بیگم محمد علی جوہر وہ واحد شخصیت تھیں کہ جنہوں نے اپنے خطاب میں اس قرارداد کو ’’قرارداد پاکستان‘‘ کا نام دیا جبکہ اس کے علاوہ ہر جگہ اس قرار داد کو قراردادِ لاہور سے ہی موسوم کیا گیا تھا۔ رات 9 بجے اجلاس دوبارہ شروع ہوا اور قائد اعظم نے اس قراردار پر رائے شماری کروائی۔ تمام مندوبین نے اس کی حمایت کی جس پر اسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔
اس قرارداد کو’’قرارداد لاہور‘‘ یا’’ قرارداد پاکستان‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،یہ قرارداد 1941ء میں نہ صرف مسلم لیگ کے آئین کا حصہ بنی بلکہ اسی کی بنیاد پر سات سال بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔
بیگم محمد علی جوہر قرارداد کے لیے جو اصطلاح(قرارداد پاکستان) استعمال کی جس نے آگے جاکر تاریخ کا دھارا موڑدیا۔
بظاہر تو یہ تین روزہ اجلاس پرامن طریقے سے ختم ہو گیا مگر اس نے ہندوستانی ایوانوں میں ایک لرزہ برپا کر دیا کیونکہ بعض ہندو اخبارات جن میں ’’پرتاپ، ٹریبیون اور ملاپ‘‘ سرفہرست تھے ، نے خوب شور مچایا۔ ’’ملاپ‘‘ نے تو اس قرارداد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘قرار دیتے ہوئے اپنی لیڈ اسٹوری بنایا۔ جس پر بہت لے دے ہوئی۔ اس کے چند ہفتوں بعد 19اپریل کو قائد اعظم کو خود یہ کہنا پڑا کہ ’’آل انڈیا کے 24مارچ کے اجلاس میں جو قرار دادمنظور کی گئی ہے یہ مسلم انڈیا اور برصغیر کی تاریخ میں ایک ریڈ لیٹر ڈے کی حیثیت رکھتی ہے ‘‘۔
قائداعظم محمد علی جناح کی تقریر کا مختصرمتن
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ ’’ہندوستان کا مسئلہ فرقہ ورانہ نوعیت کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے اور اس کو اسی لحاظ سے حل کرنا چاہیے جب تک اس اساسی اور بنیادی حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھا جائے گا جو دستور بھی بنایا جائے گا وہ چل نہیں سکے گا اور نہ صرف مسلمانوں بلکہ انگریزوں اور ہندوؤں کے لئے بھی تباہ کن اور مضر ثابت ہو گا۔
قائد اعظم نے کہا کہ’’لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی چاہیے ۔ ہم چاہتے ہیں کے کہ آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ زندگی بسر کریں اور اپنی روحانی، ثقافتی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو اس طریق پر زیادہ سے زیادہ ترقی دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو۔‘‘
مینار پاکستان تاریخ کا آئینے میں
مینار پاکستان لاہور، پاکستان کی ایک قومی عمارت/یادگار ہے جسے پنجاب کے دل لاہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی ’’قرارداد پاکستان‘‘ منظور ہوئی۔ اس کو’’ یادگار پاکستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس جگہ کو اس وقت منٹو پارک کہتے تھے جو سلطنت برطانیہ کا حصہ تھی۔ آج کل اس پارک کو ’’اقبال پارک‘‘ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔
سفارشاتی کمیٹی
اس کی تعمیر کے سلسلے میں 1960ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اور اسی کمیٹی کی منظور شدہ سفارشات اور ڈیزائن پر اس مینار کی تشکیل ہوئی تھی۔ مختار مسعود بھی اس کمیٹی کے سرکردہ رکن تھے ۔
تعمیر
اس کا ڈیزائن ترک ماہر تعمیرات نصر الدین مرات خان نے تیار کیا۔ تعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ اور 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔
مینار کا ڈھانچہ
یہ 18 ایکڑ رقبے پر محیط ہے ۔ مینار کا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشابہت رکھتا ہے ۔ اس کی سنگ مرمر کی دیواروں پر قرآن کی آیات، محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کے اقوال اور پاکستان کی آزادی کی مختصر تاریخ کندہ ہے ۔ اس کے علاوہ قرارداد پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اور بنگالی دونوں زبانوں میں اس کی دیواروں پر کندہ کیا گیا ہے ۔یہ تمام خطاطی حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم خورشید رقم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کے فنِ خطاطی کے عمدہ نمونے ہیں۔
حیرت انگیز معلومات
قیام پاکستان سے پہلے دو مرتبہ حکومت برطانیہ نے منصوبہ بنایا کہ منٹو پارک میں شاہ جارج پنجم کا مجسمہ نصب کیا جائے اور اسے ایک سیر گاہ بنایا جائے لیکن دونوں مرتبہ عالمی جنگوں کی وجہ سے یہ منصوبہ پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا کیونکہ قدرت نے یہاں پاکستان کی بنیاد رکھنی تھی۔
ترک نژاد نصرالدین مرات خان راسخ العقیدہ مسلمان تھے ۔ روس میں انہوں نے سول انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر کے تعمیراتی مصروفیات کے ساتھ روسی مسلمانوں کے لیے فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں جس پر روسی سامراج نے انہیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزارا۔ آخر وہ روس سے جرمنی منتقل ہو گئے وہاں انہیں قیام پاکستان کے پس منظر کا پتہ چلا تو وہ بہت متاثر ہوئے اور 1950ء میں پاکستان آ کر رہائش اختیار کر لی،اور مینار کا ڈیزائن تیار کیا، 15اکتوبر 1970ء کو نصرالدین مرات لاہور میں ہی انتقال کرگئے۔ مینار پاکستان کی تعمیر میں مالی مشکلات کے پیش نظر نصرالدین مرات خان نے اپنی فیس جو کہ ڈھائی لاکھ روپے سے زائد بنتی تھی وہ بھی نہ لی اور فیس کے خانے میں یہ تاریخی جملہ لکھا۔ ”A HUMBLE DONATION TO THE NATION”
یہی نہیں انہوں نے اپنے عملے کو تنخواہیں بھی اپنی جیب سے ادا کیں اور یوں دو تین لاکھ روپے مزید اپنی طرف سے خرچ کئے ۔ ان کی بے لوث خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ’’تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا۔
مینار کی تعمیر میں استعمال ہونے والا میٹریل پاکستانی ہے ۔ سنگ مرمر ہزارہ ڈویژن اور سوات سے منگوایا گیا تھا۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے ۔ جو 180 فٹ تک لوہے اور کنکریٹ سے بنا ہے اس سے اوپر کا حصہ اسٹیل کا ہے ۔ اس کی پانچ گیلریاں اور بیس منزلیں ہیں۔ پہلی گیلری تیس فٹ اونچائی پر ہے ۔ مینار پر چڑھنے کے لیے 334 سیڑھیاں ہیں۔ جبکہ لفٹ کی سہولت بھی موجود ہے ۔
مینار کے آخر پر چمکنے والا گنبد اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان عالم اسلام میں خوب روشن مقام رکھتا ہے ۔ صدر دروازے پر ’’مینار پاکستان‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کی تختیاں آویزاں ہیں۔مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزار بھی ہے ۔ مینار کے اردگرد خوبصورت سبزہ زار اور راہداریاں ہیں۔ شاید یہ دنیا کا واحد مینار ہے جو کسی قرارداد کی یاد کے طور پر تعمیر کیا گیا ہو۔
مینار پاکستان اور ملحقہ پارک کی دیکھ بھال 1982ء میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے )کے سپرد کر دی گئی۔ 2018میںاقبال پارک کو گریٹر اقبال پارک کا نام دیا گیا ہے ۔ اور تھیم پارک کی حیثیت دی گئی ہے ۔ اس میں لائبریری، اوپن ایئر جمنیزیم، بگھی ٹریک اور آٹھ سو فٹ طویل میوزیکل اینڈ ڈانسنگ فاؤنٹین یعنی فوارے نصب کئے گئے ہیں۔ اس کی آرائش و زیبائش میں اضافہ کیا گیا ہے یوں سیاحوں کی دلچسپی بھی اس میں بڑھ گئی ہے ۔