!ـ23 مارچ یوم عزم و استقلال

476

پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا، بقول قائد اعظمؒ’’ ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ‘‘۔ بانئی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریبا ً114خطابات اور تقریروں میںدو ٹوک الفاظ میںاس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا توانہوں نے فرمایاکہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں ،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر پاکستان حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں۔ جب تک قوم بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی ، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔
پاکستان کا قیام کسی وقتی جوش یا جذباتی سوچ کا بھی نتیجہ نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے محسن انسانیت حضرت محمدﷺکی رہنمائی میں قائم ہونے والی مدینہ کی اس اسلامی و فلاحی ریاست کا نمونہ اور سوچ کارفرما تھی جس میں ایک عام شہری کو بھی حاکم وقت کے برابر حقوق حاصل تھے۔امن و امان کی صورتحال یہ تھی کہ سونے چاندی سے لدی پھندی ایک عورت بلا خوف و خطر صنعاء سے حضر موت تک سینکڑوںمیل کا سفر تن تنہاطے کرتی تھی اور کسی میں جرأت نہیں تھی کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔ فرمانروائے مملکت عوام کی خبر گیری کیلئے راتوں کوگشت کرتے تھے اور حاجت مندوںکی حاجت روائی کیلئے خدمت کے جذبہ سے سرشار ، عوام کے خادم ،اللہ کے سامنے جواب دہی کے خوف سے تھر تھر کانپنے والی ریاستی مشینری ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتی تھی۔حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت میں کوئی زکواۃ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کرانادینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمہ داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی دوسری مملکت خدا داد ہے ، پاکستان کا قیام بلاشبہ بیسویں صدی کا عظیم معجزہ ہے ،اس عطیہ خداوندی کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ،پاکستان کے حصول کیلئے ہمارے آبا ئو اجداد کو ناقابل فراموش قربانیاں دینا پڑیںاور آگ اور خون کے جس دریا سے گزرنا پڑا ،وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی ۔قومیں اپنے نظریات کی بنا پر زندہ رہتی ہیں ،اپنے اسلاف کے طے کردہ نشانات منزل کو گم کردینے اور اپنے نظریات کو فراموش کر بیٹھنے والوں کا وجود زمین زیادہ دیربرداشت نہیں کرتی اور وہ حرف غلط کی طرح مٹا دیئے جاتے ہیں ۔پاکستا ن اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم !ان جذبوں کو نوجوان نسل کے دل و دماغ میں راسخ کرنے ، وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے اور اس کے حصار کو مستحکم تر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اس انداز میں کی جائے کہ وہ نظریہ پاکستان کو اپنی زندگیوں کا مرکز ومحور بنا لیں اور کسی لمحہ بھی اس عظیم مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں ۔
قومی سوچ اور حب الوطنی کے جذ بات کو پروان چڑھانے میں 23مارچ کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کیلئے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم’’ تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغازکردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنا یا جاسکے ۔کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کیلئے آئین و قانون کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملہ میں 102ملکوں میں سے 98ویں نمبر پر ہے ۔قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن ،غربت ،جہالت ،عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے ۔ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لئے اپنے حقوق سے محروم ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کاادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیر دار ،وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت ،لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم در تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔
دستور پاکستان میںعوام کو ان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ ،ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی ۔ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی پنڈت آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے
۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک کہ خود صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہیں سمجھا جاتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی بنیاد سے وابستہ ہے ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ترقی و خوشحالی کے مغربی تصور کے سراب سے باہر نکلیں اور ریاست مدینہ کے اس تصور کو اپنے ذہنوں میں بٹھائیں جس پر چلتے ہوئے ہمارے اسلاف نے فلاح انسانیت کی معراج کو حاصل کیا تھا۔اپنی آنے والی نسلوں کے ذہنوں میں قرآن و سنت کے احکامات کو راسخ اوراسی کو بنیاد بنا کر نظریہ پاکستان کی آبیاری کریں ۔پاکستان کے نظریے کو سمجھنے کیلئے آئن سٹائن کے دماغ یا افلاطون کی ذہانت کی ضرورت نہیں یہ بہت ہی سادہ اور آسان سی بات ہے کہ مسلمان دوسری قوموں سے ایک بالکل الگ قوم ہیں ،ہندوئوں اور سکھوں کے ساتھ سینکڑوں سال اکٹھے رہنے کے باوجو دمسلمان معاشرت ، تہذیب و تمدن ،معیشت ، اور زندگی گزارنے کے دیگر تمام شعبوں میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتے تھے ۔اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کے ذہن میں اپنا وہ شاندار ماضی اور عزت و وقار اجاگر کرسکیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم قیام پاکستان کے وہ عظیم مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوں جن کیلئے ہمارے ابائواجداد نے اپنا سب کچھ قربان کردیا تھا۔