ماہِ شعبان کے روزے

564

ماہِ شعبان ایک بابرکت مہینہ ہے، ’’شعبان‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’شَعّبہ‘‘ سے بنا ہے، جس کے معنی پھیلنے کے آتے ہیں اور چوں کہ اس مہینے میں رمضان المبارک کے لیے خوب بھلائی پھیلتی ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ’’شعبان‘‘ رکھاگیا۔ (عمدۃ القاری، باب صوم شعبان)
نبی کریمؐ اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہؐ نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے سوا کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپؐ کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں‘‘۔ َ (صحیح بخاری، مسلم) ایک اور حدیث میں فرماتی ہیں: ’’رسول اللہؐ کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے ملادیں‘‘۔ (کنزالعمال)
اسی طرح سیدہ ام سلمہؓ فرماتی ہیں: ’’میں نے رسول اللہؐ کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دو مہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔ (ترمذی) یعنی نبی کریمؐ رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔
ماہِ شعبان میں روزے کی حکمتیں
ماہِ شعبان میں رسول اللہؐ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، علامہ محب طبریؒ نے چھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ (عمدۃ القاری) جن میں سے چار حکمتیں وہ ہیں جن کی طرف احادیث میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، انھیں کو یہاں ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
1۔رمضان کی تعظیم اور روحانی تیاری
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے سوال کیاگیا کہ رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ۔ (ترمذی) یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انوار وبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہِ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا تھا اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔ (الطائف المعارف لابن رجب، معارف الحدیث)
2۔اللہ تعالیٰ کی طرف اعمال کا اٹھایا جانا
سیدنا اسامہ بن زیدؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں؛ حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے سے ہوں۔ (شعب الایمان، فتح الباری)
3۔مرنے والوں کی فہرست کا ملک الموت کے حوالے ہونا
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے دریافت کیا کہ یارسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی حدیث، فتح الباری)
4۔ہر مہینے کے تین دن کے روزوں کا جمع ہونا
زفائدہ (1): مندرجہ بالا احادیث شریفہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریمؐ کئی حکمتوں کی وجہ سے شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔ (ترمذی شریف، جامع الاحادیث) علما نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کمزور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو اس حدیث شریف میں یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو؛ بلکہ کھاؤ پیئو اور طاقت حاصل کرو؛ تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھ سکو اور دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دے سکو اور نبی کریمؐ چونکہ طاقتور تھے، روزوں کی وجہ سے آپؐ کو کمزوری لاحق نہیں ہوتی تھی؛ اس لیے آپؐ نصف شعبان کے بعد بھی روزے رکھتے تھے اورامت میں سے جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہیں اور روزے ان کو کمزور نہیں کرتے وہ بھی نصف شعبان کے بعد روزے رکھ سکتے ہیں، ممانعت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جن کو کمزوری لاحق ہوتی ہے۔ (فتح الباری، تحفۃ الالمعی)
فائدہ (2): ماہِ شعبان کے روزے صحیح روایات سے ثابت ہیں، جیساکہ تفصیل گزر چکی۔ لہٰذا شعبان کے کم از کم پہلے نصف حصے میں روزے رکھنے چاہییں اور اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے۔ اگرچہ یہ روزے نفلی ہیں نہ رکھنے پر کوئی مواخذہ نہیں۔