افغانستان کا امن خطرے میں

951

نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ان کی حکومت طالبان کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے جس کے تحت معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی صورت میں یکم مئی تک مکمل فوجی انخلا ہوگا۔ اس حوالے سے فیصلے پر کام کررہا ہوں کہ کب فوج کو واپس بلانا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سابق صدر نے بہتر انداز میں معاہدہ نہیں کیا۔ ہم حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھی مشاورت کررہے ہیں اور یہ عمل ابھی جاری ہے۔ تمام فوجیوں کا یکم مئی تک افغانستان چھوڑنا مشکل فیصلہ ہوگا، ایسا ہوسکتا ہے، لیکن بہت مشکل ہے‘‘۔ امریکی صدر کے بیان کا فوری جواب طالبان کی جانب سے آیا ہے اور انتباہ کیا گیا کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو ہماری طرف سے سخت ردعمل آئے گا۔ افغان طالبان کے نمائندے ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی صدر کے انٹرویو کے جواب میں کہا ہے کہ امریکا دوحہ معاہدے کے مطابق یکم مئی تک افغانستان پر قبضہ ختم کرے۔ فوج نہیں نکالی تو تمام نتائج کا ذمے دار امریکا خود ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے پاس یکم مئی تک مہلت ہے اگر وہ اپنی افواج کو افغانستان سے نہیں نکالتا تو پھر ہمارے سخت ردعمل کے لیے تیار ہوجائے۔ دو سال کے اعصاب شکن مذاکرات کے بعد گزشتہ برس 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان تاریخی معاہدہ ہوا تھا جس میں ایک طرف وقت کی سپر پاور امریکا تھی، دوسری طرف دنیا کے سب سے پسماندہ ملک افغانستان کے دفاع کی جنگ لڑنے والی امارات اسلامیہ افغانستان یا افغان طالبان تھے جن کی طاقت کا کوئی موازنہ نہیں تھا۔ جب افغانستان پر امریکا حملہ آور ہوا تو اس کے ناٹو کی فوج بھی تھی جو 40 ممالک پر مشتل ہے جب کہ اسے دنیا کے ہر ملک کی سیاسی حمایت بھی حاصل تھی۔ جدید ترین ہتھیاروں اور جنگی ٹیکنالوجی کے باوجود افغانستان پے قبضے کے لیے ’’وار اینڈ ٹیرر‘‘ کے نام سے چھیڑی جانے والی یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین اور مہنگی ترین جنگ بن گئی ہے۔ امریکا اس جنگ میں ایک ٹریلین ڈالر جھونک چکا ہے، لیکن افغان مجاہدین کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اس جنگ میں اپنی شکست کے تاثر کو دنیا سے چھپانے کے لیے جن افغان طالبان کو غیر مہذب اور دہشت گرد قرار دیا تھا ان ہی سے مذاکرات کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوا۔ ابتدا میں امریکا کی کوشش تھی کہ افغان طالبان کے مذاکرات کابل کی حکومت سے کرائے جائیں اور امریکا ان کی سرپرستی کرے، لیکن افغان طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔ امریکی کوشش تھی کہ افغان طالبان مذاکرات کے نام پر ہتھیار ڈال دیں، لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔ مذاکرات کے مراحل کا آغاز اوباما کے دور میں ہوگیا تھا اس مقصد کے لیے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر قائم کیا گیا۔ پاکستان میں قید طالبان رہنمائوں کو رہا کیا گیا اور بالآخر امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ طے پاگیا۔ ان مذاکرات کا اگلا مرحلہ بین الافغان امن مذاکرات ہیں جس کے بنیادی کردار کابل پر قائم امریکی کٹھ پتلی حکومت اور امریکا کے مقابلے میں فاتح افغان طالبان ہیں۔ اس سلسلے میں کئی سطح پر سفارت کاری جاری ہے۔ روس کی میزبانی میں ماسکو میں افغان امن کانفرنس جمعرات 18 مارچ کو منعقد ہورہی ہے جس میں افغان طالبان اور کابل حکومت نے شرکت پر رضا مندی ظاہر کردی ہے۔ روس نے ان مذاکرات میں امریکا، چین، پاکستان، ایران اور قطر کو بھی دعوت دی ہے۔ اسی سلسلے میں ایک اور کانفرنس اگلے ماہ ترکی میں ہوگی جس میں افغان طالبان، کابل حکومت اور افغانستان کے دیگر سیاسی گروہوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے۔ مستقبل کے نظام پر اتفاق رائے سب سے مشکل مرحلہ ہے، لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات پر مکمل عملدرآمد پر اول دن سے شکوک و شبہات ہیں لیکن ان مذاکرات کے درمیان میں طالبان نے جرأت و استقامت اور تدبر و بصیرت دونوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکی رویہ امن کے قیام کے لیے شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے۔ معاہدے کا لازمی تقاضا ہے کہ جو عہد کیا جائے اسے پورا کیا جائے لیکن اتنی بڑی ہزیمت اور شکست کے باوجود امریکی قیادت دھوکا دہی سے باز نہیں آرہی ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر نکل آیا، اب جس میں دوبارہ واپس ہونے کی کوشش کررہا ہے اور جوبائیڈن افغان طالبان کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد سے گریز کررہے ہیں۔ یہ ہے امریکی رویہ عالمی معاہدوں کے بارے میں جس کی وجہ سے دنیا کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔ جوبائیڈن نے ٹرمپ کے معاہدے پر اعتراض کرنے کے باوجود امریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ جنہوں نے طالبان سے معاہدے کو کامیابی سے تکمیل تک پہنچایا۔ دوحہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد اس خطے میں امن کی ضمانت ہے ورنہ خوں ریزی کے تسلسل کی ذمے داری امریکا پر عاید ہوگی۔ افغانستان میں امریکی ہزیمت نوشتہ دیوار ہے۔