دنیا میں خودکشی کے رحجان کی وجہ ڈپریشن، اعصابی کشیدگی، اَن جانا خوف ہے

422

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید)دنیا میں خودکشی کے رحجان کی وجہ ڈپریشن، اعصابی کشیدگی اور اَن جانا خوف ہے‘ ملک میں ڈپریشن میں مبتلا افراد کی شرح دنیا بھر سے 4 گنا زیادہ ہے‘ معاشی تباہ کاریاں بھی خود کشی اور تشد د میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں ‘خودکشی کرنے والے خود اعتمادی کی کمی اور احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار میو اسپتال لاہورکے شعبہ نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر آفتاب آصف، گجرات یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کی ڈین، ماہرِ نفسیات ڈاکٹر بشریٰ، ماہرِ نفسیات عطیہ نقوی اور لکھاری رؤف ظفر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’دنیا میں خودکشی کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟ ڈاکٹر آفتاب آصف نے کہا کہ اسپتال میں آنے والے مریضوں سے بات چیت سے ملک میں دماغی اور نفسیاتی امراض کی عمومی صورتِ حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ کو ئی مشکل کام نہیں‘ صرف میو اسپتال کی او پی ڈی میں 4 سال قبل تک اوسطاً روزانہ مریض50 سے60 آتے تھے، اب ان کی تعداد250 سے300 سے تجاوز کرچکی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے‘ یہ حال نہ صرف میو اسپتال تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر ماہرینِ نفسیات کے کلینکس کا بھی یہی حال ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ زیادہ تر مریض کن نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، تو ان میں سرِفہرست ڈپریشن اور اعصابی کشیدگی ہے‘ دوسرے نمبر پر ایسے لوگ ہیں، جنہیںاَن جانے خوف اور مختلف امراض میں مبتلا ہونے کا وہم لاحق ہوتا ہے‘ وہ ہر ایک کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور یاد داشت کی کمی اور بے خوابی کا شکار رہتے ہیں‘یہ کیفیات شدت اختیار کر جائیں تو شیزوفرینیا کے مرض میں تبدیل ہوجاتی ہیں ،جو زیادہ خطر ناک ہے۔ بات یہ ہے کہ طویل عرصے تک ڈپریشن، مایوسی، غصّے اور پریشانیوں میں مبتلا رہنے کی وجہ ہی سے دیگر نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بشریٰ کا کہنا ہے کہ ایک طویل عرصے تک یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ خودکشی کا تعلق ذہنی دباؤ یا ڈپریشن سے ہے اور ڈپریشن کی ایک بڑی علامت خودکشی کے خیالات کا آنا ہے‘ خودکشی یا خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد میں اکثر خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے‘ وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی شخصیت کے بارے میں احساسِ کمتری کا شکار ہوتے ہیں‘ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بحیثیت معاشرہ ہم لوگوں کو سراہتے نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی کوتاہیوں اور ناکامیوں کو نمایاں کرتے ہیں‘ ذہنی دباؤ یا ڈپریشن نوجوانوں میں بھی خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔انہوں نے بتایا کہ ڈپریشن کی بھی2 اقسام ہیں۔ ایک تو وہ جس کے بارے میں لوگ عام طور پر جانتے ہیں یعنی کہ کسی حادثے یا سالہا سال مایوسی کی زندگی گزارنے کے بعد جب مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے تو انسان اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہِ صحت کے 2012ء میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اُس سال تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی ‘ ڈبلیو ایچ او کی 2014ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 8 لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں‘ پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری قسم فنکشنگ ڈپریشن ہے‘ اس میں انسان ہنستا، مسکراتا، خوش باش شخص ہوتا ہے اور کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اس کو کوئی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے‘ اپنی خودکشی سے چند گھنٹے پہلے تک وہ دوستوں اور گھر والوں سے فون پر بات کرتا ہے اور کسی قسم کاشائبہ تک نہیں ہوتا کہ یہ شخص خودکشی کر لے گا لیکن ایسا ہو جاتا ہے۔ عطیہ نقوی نے کہا کہ جو لوگ خودکشی کرتے یا اس کی کوشش کرتے ہیں ان میں بھی2 طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو واقعی اپنی زندگی ختم کرنا چاہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اپنے اردگرد لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے ایسا قدم اٹھاتے ہیںکیونکہ بقول ان کے کوئی بھی شخص ان کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا‘ ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی تباہ کاریاں بھی خود کشی اور تشد د میںاضافے کا باعث ہیں‘ہر تیسرا، چوتھا شخص (بشمول خواتین) سکون آور گولیاں استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن فارمینٹل ہیلتھ کے مطابق ملک میں ڈپریشن میں مبتلا افراد کی شرح دنیا بھر میں ڈپر یشن میں مبتلا افراد سے 4 گنا زیادہ ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ صورتِ حال اتنی خطرناک ہے کہ ماہرِ نفسیات نے ملک میں فوری طور پر ذہنی صحت سے متعلق آگہی مہم چلانے پر زور دیا۔ کراچی میں تو اس حوا لے سے مہم شروع بھی کی گئی جس میں ماہرین نے ٹارگٹ کلنگ، جنسی جرائم، بچوں کے اغوا اور خاندانی نظام کے بکھرتے شیرازے کو ملک میں پھیلتی بے چینی اور مایوسی کا شاخسانہ قرار دیا۔ ماہرین کے مطابق ذہنی صحت کا معاملہ دوسرے امراض سے اس لیے مختلف ہے کیونکہ اس مرض میں مبتلا شخص کی جب تک رضامندی شامل نہ ہو‘ علاج کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکتے‘ اس کیس میں اصل تبدیلی مریض کے اندر سے ہی آئے گی اور اگر وہ علاج کرانا چاہتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنی مدد کرنا چاہ رہا ہے‘ موت ہر رشتے پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے‘ خاص طور پر خودکشی کی موت۔ ماں باپ غم میں چلے جاتے ہیں جبکہ بہن بھائیوں میں غصہ آجاتا ہے کہ جانے والے نے تو اپنی مرضی کر لی اور ان کے گھر کا ماحول ہمیشہ کے لیے بدل گیا‘ خودکشی کے بارے میں معاشرتی رویہ بھی انتہائی متعصبانہ ہے‘ اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔لکھاری رؤف ظفر کا کہنا ہے کہ ڈپریشن، اَن جانا خوف، عدم تحفّظ کا احساس، مایوسی، بے خوابی، گھریلو، سماجی اور معاشی پریشانیاں اس طرح کے کئی الفاظ ملک کے کم و بیش ہر شفاخانے میں سننے کو ملتے ہیں‘ ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ذہنی امراض کے علاج کے لیے ذرائع محدود ہیں۔