خواتین کے حقوق اور ایجنڈا

489

ہر سال خواتین کی آزادی اور مساوات کے حوالے سے کچھ ادارے (جو بہت بااثر اور طاقتور ہیں بہت پیسے والے ہیں) ایک مہم چلاتے ہیں۔ اس مہم میں وہ عورت کو بااختیار بنانے اور اسے مضبوط بنانے کی بات کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساری باتیں عورتوں سے کہلوائی جاتی ہیں، یہ سارے نعرے لگانے والی خواتین خود بڑے گھروں اور خوشحال گھرانوں کی ہوتی ہیں، ان کو خود حقوق کی ضرورت نہیں بلکہ وہ دوسری خواتین کے حقوق کے لیے آواز اُٹھاتی ہیں لیکن تضاد یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اگر پاکستانی عورتوں کے لیے بالعموم آواز اٹھائی جارہی ہے تو پورے ملک میں عورت متاثر ہے۔ ملک کی آبادی کا 68 فی صد حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے ۔ نئی مردم شماری میں یہ تعداد 64 فی صد کے لگ بھگ بتائی گئی ہے لیکن اس میں تو اضافہ ہونا چاہیے تھا کیوں کہ کراچی سے ڈیڑھ کروڑ آبادی کو مختلف دیہات اور شہروں میں ظاہر کیا گیا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف شہری آبادی کی خواتین کے حقوق کی بات کی جانی چاہیے۔ اینٹوں کے بھٹے پر، کھیتوں میں کام کرنے والی، فصلوں کی کٹائی میں کام کرنے والی، شاہراہوں، موٹر وے وغیرہ پر کام کرنے والی عورتیں بھی تو ورکنگ وومن ہیں، ان کے حقوق کہاں گئے، اچھا اگر یہی مان لیں کہ یہ شہری خواتین کے حقوق کی تحریک ہے تو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تین بچوں سمیت اغوا کرکے بگرام ائربیس پہنچا دیا گیا۔ وہاں سے امریکا لے جایا گیا، جعلی مقدمہ چلایا گیا اور اس کو 86 برس کی سزا ہوگئی۔ عورت کی آزادی کے لیے آزادی مارچ کرنے والی خواتین عافیہ کی آزادی کے لیے کیوں مارچ نہیں کرتیں۔ اور ہزاروں خواتین کے بیٹے، شوہر اور باپ لاپتا ہیں ان کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم غریب خواتین کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ ان کے اپنے ایجنڈے پر مظاہرہ کرنے والی غریب خواتین الگ کھڑی تھیں اور ایجنڈا خواتین دور کھڑی الگ مظاہرہ کررہی تھیں، اور اگر اپنا حال دیکھا جائے تو گھریلو ملازمائوں پر تشدد اور ان کو جبری مشقت کے لیے گھروں میں قید رکھنے کا رویہ بھی اسی طبقے کی وڈیرہ شاہی خواتین کا کام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کو تو اسلام اور اسلامی قوانین کو اور خاندانی نظام کو نشانہ بنانا ہے ورنہ خواتین پر گھریلو تشدد میں جرمنی و فرانس دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ آواز اٹھائیں ان کے خلاف۔