پاکستان میڈیکل کمیشن طبی ماہرین تعلیم کی مشاورت سے کام کریگا

112

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی )پاکستان میڈیکل کمیشن کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی نے اعلان کیا ہے کہ کمیشن تمام سرکاری اور غیر سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کے خدشات کو دور کرنے کے لیے بات چیت پر تیار ہے۔ 162میڈیکل یونیورسٹیوں اور کالجز کو خط لکھ کر ان کی تجاویز اور سفارشات لی جائیں گی۔ کمیشن تمام میڈیکل کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر کام کرے گا اور تمام تحفظات اور خدشات کو دور کیا جائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے زیر اہتمام پاکستان میڈیکل کمیشن: خدشات اور توقعات کے موضوع پر ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ویبینار میں ملک کی مختلف میڈیکل یونیورسٹیز کے وائس چانسلرز اور نامور طبی ماہرین تعلیم نے شرکت کی اور کمیشن کے قیام ، داخلہ و امتحان پالیسی ، رجسٹریشن اور باڈی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور تجاویز دیں۔ ان میں ممبر کمیشن پروفیسر رومینہ حسن، وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کراچی پروفیسر طارق رفیع، وائس چانسلر کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور پروفیسر خالد مسعود گوندل، وائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر عامر زمان، پرنسپل جناح میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج پروفیسر سید حسن مہدی، صدر پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ڈاکٹر خبیب شاہد، سابق ڈین PKLI پروفیسر حافظ اعجاز احمد، وائس چانسلر شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد پروفیسر محمد اقبال خان، ڈین پشاور میڈیکل کالج پروفیسر حفیظ الرحمن اور صدر پیما کراچی پروفیسر عظیم الدین شرکت تھے۔ پروفیسر عبداللہ متقی نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔ طبی ماہرین تعلیم نے اپنی گفتگو میں کہا کہ کمیشن اپنا معیار ضرور بڑھائے لیکن اس سے پہلے پرائمری اور سیکنڈری میڈیکل ایجوکیشن کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ MDCAD میں اتنی سخت پالیسی رکھی گئی ہے کہ اکثر ڈینٹل کالج طلباء سے خالی جا رہے ہیں۔ کمیشن میں طبی تعلیم کے نمائندوں کو شامل کرنا چاہیے تھا لیکن اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کا میڈیکل پروفیشن سے تعلق ہی نہیں ہے۔ PMC نے اکثر حوالوں سے اپنی ذمے داریوں سے ہاتھ اٹھا کر HEC کو اختیارات دیے ہیں اور میڈیکل کالجز کو بھی خود مختار کیا ہے۔ ڈاکٹر ارشد تقی نے اپنی گفتگو میں کہا کہ پاکستان میڈیکل کمیشن تمام سرکاری اور غیر سرکاری میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ڈائیلاگ پر تیار ہے۔ ملک میں طبی تعلیم کو ریگولیٹ کرنے کے لیے تمام اسٹک ہولڈز کو اعتماد میں لیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فعال رجسٹریشن کے بغیر پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔