میرے دادا چودھری انور عزیز

433

میرے دادا نے مجھے نصیحت کی ’’پتر سچائی، انصاف، شیریں زباں اور اخلاص سے اپنے لوگوں کی خدمت کرتے رہنا اسی طرح تم شکر گڑھ کے لوگوں کے دل جیتو گے‘‘۔ انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ ہمیشہ اپنے لوگوں کی بات تحمل سے سننا اور ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرنا، یہی تمہاری اور شکر گڑھ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ میرے داد نے مجھے بتایا کہ جب انہوں نے 1962ء میں سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے آبائی گاؤں شکر گڑھ آئے اور گورداس پور کی سرحد پر واقع خوبصورت وادی کو دیکھتے ہوئے درخت کے سائے کے نیچے اکیلے کھڑے ہو کر عہد کیا کہ مرتے دم تک اپنے علاقے کے مظلوم اور غریب لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔ اس خدمت کے مشن کو بڑھانے کے لیے جب انہوں نے آواز لگائی تو رفتہ رفتہ ان کی حمایت میں ’’قافلہ‘‘ تشکیل پاتا گیا۔ اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ ہرغم اور خوشی میں بلا امتیاز شکر گڑھ کے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔
’’میری دادی کیتھی نے بھی دادا کے مشن کو آگے بڑھانے اور ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں انہوں نے مشی گن یونیورسٹی سے گریجویٹ کی ڈگری مکمل کی اور دادا کی معاونت کے لیے ماری پور میں مقیم رہیں۔ میرے تایا اور پھوپھو بھی اپنے علاقے سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ دادا بتاتے ہیں کہ جب یہ دونوں چھوٹے تھے تو گھوڑے پر بیٹھ کر مقامی پرائمری سرکاری اسکول جایا کرتے تھے۔ دادا مجھے اکثر کہتے پتر مجھے شکر گڑھ کی مٹی سے محبت ہے۔ اور یہ محبت میرے، آپ کے والد اور اب آپ کے خون میں ہے اسے ہمیشہ قائم رکھنا۔
میرے دادا کے گھر ’’ڈیرہ انور عزیز‘‘ کا کوئی دروازہ نہیں ہے۔ ستونوں سے گزرتا ایک بڑا راستہ ہے جو لوگوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ یہاں پر آنے والے تمام لوگوں کے لیے وسیع دسترخوان بھی لگا رہتا ہے۔ جبکہ دادا کے کمرے میں آنے والے ہر شخص کو بڑی چاہ اور گرم جوشی سے چائے پلائی جاتی۔ علاقے کے لوگوں کی دادا سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی بھی، میں گاؤں میں ان کے کمرے میں سوتا تو ان کے فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہتی۔ میں نے ایک دن دادا سے پوچھا کہ آ پ کیسے اتنی ساری فون کالز سن لیتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ’’پتر مجھے ان لوگوں سے پیار ہے ان کے بغیر میں کچھ بھی نہیں یہ لوگ میرا مان ہیں‘‘۔ سب سے خاص بات یہ کہ جب میں دادا کے کمرے کے ساتھ ہی منسلک ڈیرے کی طرف جاتا تو لوگوں کو سگریٹ و چائے سے محضوظ ہوتے اور ان کے ساتھ گپیں لگاتے، ہنستے مسکراتے دیکھ کر دل خوش ہو جاتا۔ اکثر لوگ خراب ٹرانسفارمر، پولیس کیسز، اسکول میں داخلے، صحت کی ہنگامی صورتحال، اور خاندانی تنازعات سے متعلق مسائل لے کر آتے، دادا کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ جو بھی مسئلہ ہو وہ جلد از جلد حل ہو جس کے لیے وہ آخری دم تک لوگوں کے مسائل حل کرنے کے بارے میں پر جوش رہے اور مخلص کوشش کرتے رہے۔
مجھے اپنے دادا کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا۔ جب کبھی بھی تعزیت، پیدائش، شادی اور بیمار بزرگوں کی تیماداری پر جانا ہوتا تو وہ مجھے نہایت نفیس آواز کے ساتھ جگاتے چودھری صاحب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں جلدی سے آجائیں۔
میرے دادا نے اللہ کی مدد، محنت اور روحانیت سے طاقت حاصل کی۔ میں نے بھی دادا کے ساتھ عظیم بزرگوں کے درباروں پر حاضری دی۔ دادا کی وفات سے ایک ماہ پہلے ہم پیر خانہ علی پور سیداں عرس جو شکر گڑھ کا سالانہ بڑا ایونٹ ہے پر اکٹھے تھے۔ دادا، میں اور بابا رات دیر تک تلاوت کرتے رہے۔ گھر واپسی پر گاڑی چلاتے ہوئے وہاں آئے لوگوں کی طرف مڑتے ہوئے بولے، ’’ہن میرا پوتا مینوں لاندا، لے جاندا اے‘‘۔
میرے دادا نے ہمیشہ مساوات اور انصا ف کا علم بلند رکھا۔ مجھے یاد ہے جب میں سات سال کا تھا اور میں نے اپنے دیہاتی دوست کو سخت دھکا دیا اور وہ گر پڑا شاید وہ زخمی ہو گیا تھا۔ جب دادا کو اس واقعہ کا علم ہوا تو وہ ڈیرے کے باغ میں اپنے دیگر دوستوں اور عملہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے اور میرے دوست کو وہیں بلا لیا۔ آپ نے تھپڑ مارنے کے بہانے میرے رخسار کو ہلکا سا چھوا اور بولے جلدی سے اپنے دوست کے ساتھ گلے ملو اور دوستی کرو۔ تم انور عزیز کے پوتے ہو تم میں اور شکر گڑھ کے کسی بھی بچے میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے یہاں کوئی کسی سے اعلیٰ نہیں، ہمیں اپنے علاقے کی لوگوں کی خدمت کرنی ہے نا کہ مقابلہ۔
میرے دادا ہمیشہ مجھے کہا کرتے تھے کہ سچائی اور حق گوئی کے ساتھ پر اعتماد اور نڈر ہونا آپ کا اولین مقصد اور منزل ہے۔ انہوں نے بتایا جب میری عمر صرف آٹھ ماہ تھی تو وہ اور بابا مجھے اپنے ساتھ تیراکی کے لیے ایک بڑے تالاب پر لے گئے تھے۔ یہاں میں بتاتا چلوں کے میرے دادا نے 1948ء میں اولمپکس کے تیراکی مقابلہ میں بھی حصہ لیا تھا، انہیں تیراکی سے بے حد لگائو تھا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوتا گیا تو مجھے بھی تیراکی کا شوق ہونے لگا۔ میں نے بھی تیراکی کے کئی مقابلوں میں حصہ لیا ہر موقع پر دادا نے مجھے مقابلہ کے دوران درست اسٹروکس کے ساتھ ہمیشہ بہتر کرنے کی تربیت دی۔
دادا ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اپنے دور میں سب سے آگے تھے اور انہوں نے شکر گڑھ میں شجر کاری کا آغاز بھی کیا۔ ڈیرہ کے سامنے ایک بہت بڑا جنگل ہے جس میں کئی بیرون ملک سے لائے گئے درخت بھی ہیں۔ دادا کے ڈیرے کے باغ میں دیواروں پر انگوروں کی بالیاں ہیں جن کو بچے اور بڑے کھاتے ہیں، اس کے علاوہ وہاں پر بیر، نیم، رات کی رانی اور دیگر بہت سارے لہلہاتے درخت بھی ہیں جنہیں دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے ان کے لگائے ہوئے ایک درخت کا تنا تقریباً خراب کر دیا تھا جس پر وہ مجھ سے ناراض بھی ہوئے۔ اس وقت انہوں نے مجھے کہا کہ کسی بھی شخص، بچے، جانور، پرندے، پودے یا جاندار چیز کو تکلیف نہیں دینا چاہیے۔ وہ درخت جسے میں نے نقصان پہنچایا تھا وہ دادا ملائیشیا سے لائے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ ہمارے معاشرے اور روایت میں درخت کا سایہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ لہٰذا وعدہ کرو کہ تم یہ سایہ فراہم کرنے کے لیے درخت لگائو گے۔
چند سال پہلے جب میں قد میں ان کے برابر ہو گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد جب میں ان سے چند انچ لمبا ہو گیا تو ہر ایک سے فخر سے ذکر کرتے کہ ’’ساڈا پوترا ساڈے توں لماں ہو گیا ہے جے‘‘۔ دادا مثبت علم اور تجربات بانٹنے والوں میں سے تھے، انہوں نے میری، خاندان اور گاؤں کے دیگر نوجوانوں کی اپنی حکمت کے ذریعے ہماری سمجھ آنے والی زبان میں تربیت کی تاکہ ہم لوگ زندگی میں بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکیں۔ وہ عمر کے پیمانوں سے آزاد اور سیکھنے کے خواہش مند رہتے تھے۔ انہیں شاعری پر اتنی دسترس حاصل تھی کہ وہ کئی دفعہ شاعری میں بات چیت کرتے تھے جبکہ علاقے کے لوگ پیار سے انہیں وڈے چودھری صاحب یا باباجی کہہ کر پکارتے۔ انہیں سیکڑوں اور ہزاروں اشعار یاد تھے اور وہ دوستوں کی محفل میں یہ اشعار پڑھتے بھی تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے میرے لیے میاں محمد بخش کا یہ شعر پڑھا تھا:
دنیا تے جو کم نے آیا اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پڑھائی میں محنت کے باوجود اگر میں کلاس میں اول نہیں آتا تھا تو میرے والد ڈانٹ ڈپٹ میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے جبکہ دادا مجھے مزید محنت کرنے، علم سے آگے بڑھنے اور نام روشن کرنے کا درس دیتے، بابا اور دادا کی رہنمائی سے میں سخت محنت کرنے کا عادی ہوگیا ہوں اور ان شاء اللہ میں اپنے دادا اپنے بابا اپنے علاقے اور پاکستان کا نام ضرور روشن کروں گا۔
میرے دادا بھی بہت محنتی اور قابل شخصیت تھے ان کو 1955ء میں مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں بارایٹ لا کی تعلیم کے لیے فل برائٹ اسکالر شپ دیا گیا تھا۔ وہ مطالعہ کو بہت پسند کر تے تھے اور مجھے بھی اس کا عادی بنانا چاہتے تھے۔ وہ جب بھی مجھ سے ملنے آتے تو بہت ساری کتابیں اور فلمیں ساتھ لے کر آتے تھے۔ وہ اس بات میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے کہ میں کتابیں پڑھنے بالخصوص تاریخ پر توجہ مرکوز کروں۔ اپنی موت سے ایک ہفتہ پہلے انہوں نے مجھے دوکتابیں دیں۔ ’’The Lesson of History ‘‘ اور ’’The Decline and fall of Roman Empire‘‘ ایڈورڈ گبن ان کے پسندیدہ مصنف تھے۔ ہم نے ان کی 90ویں سالگرہ خاموشی سے منائی کیوں کہ یہ پھوپھو کرن کی وفات کے فوری بعد تھی۔ اس شام وہ معمول کی طرح عمر سے بڑے دکھائی دے رہے تھے اور گہرے سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔ انہوں نے خاندان اور دوستوں کے چھوٹے سے گروپ کو اپنی زندگی کی کہانیوں، شاعری اور پیار سے محضوظ کیا۔
دادا آپ چلے گئے لیکن میرے پاس کھڑے ہونے کے لیے آپ کے ’’تگڑے‘‘ کندھے موجود ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی میراث کو ان شاء اللہ جاری رکھا جائے گا۔
اٹ کھڑکے دکڑ وجے تتا ہووے چلھا
اون فقیر تے کھا کھاجاون راضی ہووے بلھا