کھوتے اور ٹھپّا 

300

گزشتہ دنوں جب پاکستان کے سینیٹ کے انتخابات ہورہے تھے پاکستان سیاسی اُفق پر کافی گرما گرمی کا رجحان دیکھا جارہا تھا۔ ظاہر ہے کہ عمران خان بھی گزشتہ بیس سال سے سیاسی میدانوں میں کھیل رہے ہیں ان کو بھی تجربہ ہوا ہے وہ بھی اسی حمام میں نہا رہے ہیں جس میں سب ہی … بڑا زور لگایا کہ خفیہ ووٹنگ نہ ہو بلکہ اوپن بیلٹ کے ذریعے ہو اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلسل یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ سینیٹ کی نشست کے لیے خریدو فروخت کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی اپنی صفوں میں دراڑ پڑجانے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر انہوں نے اوپن بیلٹ، شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخابات کرانے کے لیے صدارتی آرڈیننس بھی جاری کرایا اور عدالت پر بھی زور دیا کہ روایتی طریقے کو تبدیل کیا جائے مگر اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔

پرانے وقتوں میں تحریکیں اور پارٹیاں نظریات کی بنیاد پر وجود میں آتی تھیں اور ان کے کچھ نہ کچھ اصول ہوتے تھے۔ لیکن اب جو پارٹیاں تشکیل پاتی ہیں اور میدان سیاست میں آتی ہیں یا لائی جاتی ہیں وہ نہ کوئی اصول رکھتی ہیں نہ کوئی نظریہ رکھتی ہیں ان کی تشکیل بھی بڑی مضحکہ خیز ہوتی ہے ایک مشہور محاورہ برسبیل تذکرہ قارئین کی نذر ہے ’’بھان متی نے کنبہ جوڑا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا‘‘ اگر مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو دیکھا جائے، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی اور لسانی او ر دیگر مسالک سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کا مشاہدہ کیا جائے تو ان کے اراکین کی ایک قابل ذکر تعداد دوسری جماعتوں سے ہجرت کرکے آئی ہے اور جب تک ان کا الّو سیدھا رہتا ہے اس میں رہتے ہیں اور جب ان کے مفادات کا دیوتا وفاداری تبدیل کرنے کا حکم دیتا ہے وہ موسمی پرندے کی طرح دوبارہ ہجرت کرجاتے ہیں۔ اور پارٹیاں اور وفاداریاں ایسے تبدیل کرتے ہیں جیسے کپڑے تبدیل کیے جاتے ہیں۔

اب تو یہ وہ مشق ہے جو ہر بار عوام اور رہنمایان قوم کررہے ہیں اب تو یہ باقاعدہ سائنس بن گئی ہے۔ گزشتہ دنوں تو حیرت ہوئی کہ تحریک انصاف کے کراچی کے رہنما نے یہ تک کہ دیا کہ ’’اگر عمران خان صاحب کھوتے (گدھے) کو بھی ٹکٹ دے دیتے تو ہم کو اسی کو ٹھپّا لگاتے‘‘ اس بیان سے اس بات کا اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ سوچ کس حد تک پست ہوگئی ہے۔ لیکن جمعرات کو وزیر اعظم کی تقریر جس میں انہوں نے الیکشن کمیشن کے لتّے لیے اور کہا کہ اگر بیلٹ پیپر پر بار کوڈ لگایا جاتا تو ہمارے 15،16 لوگوں کے بکنے کا پتا چل جاتا۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کھل کر کیا کہ کرڑوں روپے میں خریدو فروخت ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سینیٹ کے الیکشن میں جس نے کروڑوں روپے لگائے ہیں وہ اتنی بڑی رقم کی ری کوری کیسے کرے گا کیا وہ حاتم طائی ہے۔ جہاں تک بات ہے کھوتوں کو ٹکٹ دینے کی! اب یہ انسان خود سوچ لے کہ جن 15، 16 ارکان نے غداری کی ہے انہوں نے کھوتوں کو ٹھپّا نہیں لگایا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب کراچی پر ایک لسانی عصبیت کا آسیب سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہر ایک سیاسی جماعت کا بوریا بستر لپیٹا جارہا تھا۔ اور انتخابات میں ووٹنگ سے پہلے ہی لوگ نتیجہ اخذ کرلیتے تھے اور سرشام ہی اپنی فتح کا جشن منانے سڑکوں پر نکل جاتے اس وقت بھی یہ فقرے سننے کو ملتے تھے کہ اگر قائد تحریک کتّے کو بھی امیدوار کھڑا دیتے تو وہ بھی کامیاب ہوجاتا! لیکن اس وقت کچھ ناسمجھ لوگ یہ بات کہتے تھے مگر آج ایک ذمّے دار فرد نے یہ بات کہہ دی۔ ویسے خان صاحب گفتار کے غازی تو ہیں ہی ان کی تقریر کا ہر جملہ کانوں میں رس گھول گیا۔ انہوں نے جب یہ کہا کہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے تو ان کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ تاریخی اعتبار سے الیکشن کمیشن نے کب جمہوریت کا بھلا کیا ہے؟ جمہوریت اور انتخابات کے مذاق کو قانونی شکل دینے کا کھیل تو یہ ادارہ برسوں سے کھیل رہا ہے۔ اس تمام عمل میں عوام تو براہ راست شامل نہیں ہیں لیکن بالواسطہ اس کا عمل دخل ہے کہ جب وہ کسی پارٹی کو ووٹ دے کر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو وہاں ان نشستوں پر بیٹھ کر اس اپنے اپنے ضمیروں کا سودا چند کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض کرتے ہیں اور عوام سے ملنے والے میڈیٹ کا سودا کرتے ہیں۔ آخری خبریں آنے تک وزیر اعظم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا مگر ان 15،16 اراکین کا پتا ہی نہیں چلا کہ جنہوں نے کھوتوں کو ٹھپّا نہیں لگایا۔

ان حالات میں عوام کو اگر ایک ایسا پاکستان چاہیے جو اسلامی ہو جس میں خوشحالی ہو، آنے والی نسل محفوظ ہو، زندگی کی بنیادی سہولتیں میّسر ہوں، ملک کی نظریاتی سرحدیں اور جغرافیائی سرحدیں محفوظ ہوں۔ ووٹ کی تین شرعی حیثیتوں کو سمجھے اوّل ووٹ گواہی ہے، دوم ووٹ بیعت ہے، سوم ووٹ وکالت ہے۔ ووٹ عوام کے پاس ایک امانت ہے جس کو اہل افراد کے حوالے کرنا دینی اور ملّی فریضہ ہے کہ قیامت میں اس بارے میں سوال ہوگا کہ اس امانت کی امانت داری کیسے کی گئی اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس امانت کو اہل افراد کے سپرد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین