خفیہ اور اوپن بیلٹ کا فرق

405

وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ کے انتخابات میں اپنے 16 یا 17 ارکان قومی اسمبلی کی غداری، بے اعتنائی، دھوکا دہی یا بکنے کے صرف دو دن بعد قومی اسمبلی کے 178 ارکان سے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔ اس سے وزیراعظم کے اعتماد میں یقیناً اضافہ ہوا ہوگا یا وہ یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اندر کے حال سے وہ بھی اچھی طرح واقف ہین اور قفان حال بھی۔

مسئلہ یہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات کے لیے حکومت اصرار کر رہی تھی۔ انتخاب اوپن بیلٹ کے ذریعے کرایا جائے جبکہ اپوزیشن خفیہ بیلٹ پر مصر تھی۔ طویل مباحثے کے بعد انتخابات خفیہ بیلٹ سے سے کرانے کا فیصلہ ہوا اور حکومت کو ایک ہی چھت تلے دو مختلف نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جانب سے سینیٹ کے دو امیدوار تھے ایک حفیظ شیخ اور دوسری خاتون تھیں حکومت کے ارکان قومی اسمبلی میں سے 16 نے ایک امیدوار حفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دیا یا پھر ان کے ووٹ میں غلطی کر دی۔ لیکن وہ غلطی خاتون امیدوار کے معاملے میں نہیں کی گئی۔ غلطی کرنے والے کو پہلے بیلٹ میں غلطی کرکے احساس ہوا یا بعد والے میں لیکن اس نے غلطی کر ڈالی اور خوب غلطی کی کہ حفیظ شیخ ہار گئے اور دوسری امیدوار جیت گئیں۔ لیکن دو دن بعد ان ہی ارکان اسمبلی میں سے کسی ایک نے بھی غلطی نہیں کی اور کوئی وزیراعظم والے دروازے کے خلاف نہیں گیا۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ انتخابات اوپن بیلٹ کے تحت ہوئے تھے ارکان اسمبلی پر کئی نظریں تھیں جو انہیں وزیراعظم کے ساتھ باندھ کر رکھنا چاہتے تھے یا جو یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے کہ کون حکومت کے خلاف ووٹ دینے والا ہے۔ چنانچہ اوپن اور خفیہ بیلٹ کا فرق سامنے آگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت تو 176 ووٹوں کی بات کر رہی تھی اسے دو ووٹ مزید مل گئے۔ حکومت تو 176 کی منتظر تھی اسے 178 مل گئے یعنی دو ووٹ انعام میں مل گئے اور یہ ثابت ہو گیا کہ حکومت کا اصرار اوپن بیلٹ کے لیے اپنے تحفظ کی خاطر درست تھا۔ لیکن اب چیئرمین سینیٹ کے لیے کیا ہوگا۔ کیا چیئرمین کا انتخاب بھی خفیہ بیلٹ سے ہوگا۔ تو پھر حکومت کو تیار رہنا چاہیے کہ اس مرتبہ تو پندرہ سولہ کا مسئلہ بھی نہیں ہوگا۔ لوٹوں کی تلاش کا مسئلہ بھی نہیں ہوگا کیونکہ لوٹے متعین ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے ضرور پوچھا جانا چاہیے کہ بیلٹ پیپر کی شناخت ضروری کیوں ہے۔ پھر خفیہ بیلٹ اور رائے کا احترام کہاں گیا۔ پوری قوم کا وقت صرف اس لیے ضائع کیا گیا کہ حکومت اپنے لوٹوں کو باندھ کر رکھنا چاہتی تھی اور اپوزیشن کے لیے جو لوگ لوٹا بننا چاہتے تھے ان کے لیے اپوزیشن خفیہ بیلٹ کرانا چاہتی تھی۔ یہ بات کہنے والی نہیں اور کوئی مانے گا بھی نہیں لیکن جانتے سب ہیں کہ دونوں ہی کے پیچھے کوئی نہ کوئی قوت تھی۔ ممکن ہے ایک ہی قوت ہو اور دونوں کو ایک ہی قوت راہیں سجھا رہی تھی اور اس قوت نے اپنے مطلوبہ نتائج نکالے۔ جو قوت خفیہ ہے اس کا تو ان ہی کو علم ہوتا ہے جن سے رابطہ کیا جاتا ہے لیکن حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تو علم تھا کہ وہ قوم کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ان کا احتساب کون کرے گا۔ ان دونوں قوتوں کا ایک دوسرے پر الزام ہے کہ یہ کرپٹ لوگوں کا ٹولہ ہے اور دونوں ہی کے پاس اس کے لیے اچھے خاصے ٹھوس ثبوت ہیں اور ثبوت کی ضرورت بھی کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد سے اب تک تقریباً 13 برس گزر چکے ہیں اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پانچ پانچ سال اور پی ٹی آئی کے ڈھائی پونے تین سال ایک تسلسل کے ساتھ تینوں پارٹیوں کی حکومت چل رہی ہے اور ملک کو قرضوں کے دلدل میں دھکیلنے والے اور ان قرضوں میں اضافہ کرنے والے یہی تینوں گروہ ہیں۔ ان گروہوں کا احتساب کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ آزادانہ منصفانہ انتخابات۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا یہ تینوں گروہ آزاد الیکشن کمیشن نہیں چاہتے ان کی ساری کوشش اقتدار اور اس کا تحفظ کرنے تک محدود رہتی ہے۔ یہ اپنے اقتدار کی آدھی مدت اسے مستحکم کرنے اور آدھی اس کو بچانے میں لگا دیتے ہیں۔ اپوزیشن بھی کوئی تعمیری کام کرنے کے بجائے حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے سازشوں اور جوڑ توڑ میں مصروف رہتی ہے۔ یہ بات بھی کسی کو پوچھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں کہ سینیٹ کے چیئرمین کے گزشتہ انتخاب اورحالیہ انتخاب میں بھی لوٹ مار کا پیسہ ہی لگا تھا اور حالیہ سینیٹ الیکشن میں بھی یہی پیسہ لگا ہے۔ تو پھر سادہ سا فارمولا ہے کہ لٹیروں نے لوٹ کا مال بچانے کے لیے لوٹ کا مال لگا دیا۔ یہ عوام کے سوچنے کا بھی مسئلہ ہے کہ کیا ایسے لوگوں کو ان پر حکمرانی کا حق ہے؟لیکن عوام کے سوچنے کا ایک اور کام بھی ہے بلکہ یہ بات تو تمام سیاسی جماعتوں کے سوچنے کی بھی ہے کہ سیاستدانوں کا امیج کون خراب کر رہا ہے ان کی جو تصویر ابھر رہی ہے وہ یہ ہے کہ یہ نوٹوں پر بک جاتے ہیں۔ انہیں ووٹ ڈالنا نہیں آتا۔ ان کے کوئی اصول نہیں ہیں۔

سیاسی مخالفت پر اپنے مخالف کی مٹی پلید کر دیتے ہیں، اخلاقیات کا جنازہ نکال دیتے ہیں چنانچہ اعتماد کے ووٹ والے دن احسن اقبال اور مصدق ملک کی پٹائی کر دی، مریم اورنگزیب سے برتمیزی کی گئی۔ سینیٹ کے الیکشن سے قبل اور الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز وہی زبان استعمال کر رہی تھیں جو عمران خان کنٹینر پر استعمال کرتے تھے۔ اوئے شو باز شریف چورو لٹیرو… لٹکا دوں گا… وغیرہ وغیرہ۔ مریم نواز بھی یہی فرما رہی تھیں ووٹ چور، مافیا، چینی چور حکومت چھوڑ دو۔ یہ اپوزیشن کی زبان بھی نہیں ہونی چاہیے اور ایک خاتون کو بھی ایسی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے لیکن وہ ایسی زبان استعمال کر رہی ہیں۔

عمران خان بہرحال واحد معاملے میں یوٹرن نہیں لے رہے۔ ان کا انداز گفتگو اب بھی وہی ہے جو کنٹینر پر تھا۔ کسی وجہ سے جو سب کو معلوم ہے لیکن پھر بھی نامعلوم وجہ سے ان کو 178 ووٹ مل گئے ہیں ناچنے گانے، بغلیں بجانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پھر وہی پرانی زبان استعمال کی ہے۔ انہوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں الیکشن کمیشن پر حیران ہوں کہ اگر سینیٹ الیکشن اچھا تھا تو برا کیا ہوتا ہے، انہیں تو اس کا جواب دینا چاہیے تھا کہ ایک امیدوار کی جیت تسلیم دوسرے کی مسترد والا رویہ کیوں ہے لیکن اس کے بجائے کہتے ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بریفنگ لیں، انہیں پتا لگے گا کہ کتنا پیسہ چلا۔ کیا اپوزیشن بھی خفیہ ایجنسیوں سے بریفنگ لے لیکن خان صاحب پیسہ چلا اور آپ کے لوگ بک گئے۔ پھر ان ہی لوگوں نے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا جو بک گئے۔ زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سے دو نمبر، زرداری دس پرسنٹ اور رشوت دے کر سب پر بھاری، گیلانی کرپٹ ترین نواز شریف بھاگ گیا۔ یہ کرپٹ ترین گیلانی اور عمران خان کا امیدوار تو سینیٹ الیکشن کے بعد ایسے مل کر ٹہل رہے تھے جیسے گیلانی کہہ رہے ہوں کروں گا تو میں بھی وہی جو آپ کرتے۔ اس پر دونوں مطمئن اور مسرور نظر آرہے تھے۔ سب باتیں تسلیم لیکن زبان تو ٹھیک استعمال کریں اور نواز شریف تو آپ کے ہاتھوں میں سے نکلے ہیں۔ ان کا رونا تو نہ روئیں۔ سیاستدانوں کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ یہ چہرہ اگر عوام کے سامنے رہے تو فوج کوئی بھی اقدام کر لے، لوگ اسے نجات دہندہ ہی سمجھیں گے۔ اپنا چہرہ خود کیوں بگاڑ رہے ہیں۔