نیلم پری

410

دن بھر کی مارا مار کے باوجود بھوک سے نڈھال جوان ملاح دریا کے کنارے اپنے چھوٹے سے جھونپڑے میں بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا کہ اُسے باہر کچھ آوازیں محسوس ہوئیں۔ سوتی ہوئی بیوی کو چھوڑ کر وہ باہر نکلا تو دیکھا چار مسافر تھے جو پار جانا چاہتے تھے۔ معاوضے میں یہ طے ہوا کہ مسافر اسے دو فراد کے لیے پیٹ بھر کھانا مہیا کریں گے۔ کنارے سے بندھی نائو کو پانی میں دھکیل کر وہ مہارت سے کشتی کھینے لگا۔ چاروں مسافر بری طرح کشتی میں اچھل کود رہے تھے۔ ملاح نے چلا کر کہا ’’تم ایسے ہی اُچھلتے کودتے رہے تو کشتی ڈوبے ہی ڈوبے‘‘۔ ’’ڈوبے یا سلامت رہے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہم اپنی اُچھل کود نہیں روک سکتے‘‘۔ چاروں مسافروں نے اُس کا مذاق اُڑاتے ہوئے ایک آواز میں کہا۔ جوان ملاح نے اودھم کے باوجود بمشکل انہیں پرلے کنارے پہنچادیا۔ ’’تم نے ہمیں کنارے پر پہنچا یا، یہ لو اس کا معاوضہ‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے خود کو جھڑ جھڑایا۔ جھڑ جھڑاہٹ کے ساتھ ہی کچھ نوٹ کشتی میں گر گئے۔ ’’یہ تم کیا دے رہے ہو تم نے مجھ سے پیٹ بھر کھانے کا معاوضہ طے کیا تھا۔ یہ نوٹ کسی کام کے نہیں۔ جب تک انہیں لے کر میں بازار جائوں گا، قیمتیں ان نوٹوں سے اوپر جا چکی ہوں گی‘‘۔ جوان نے ناراضی سے کہا ’’ٹھیک ہے تم ہم سے قرض لے لو لیکن اس پر تمہیں سود ادا کرنا ہوگا‘‘۔ یہ کہہ کر ان چاروں مسافروں نے کشتی سے چھلا نگ لگائی۔ جوان نے انہیں پکارا ’’میں سود پر رقم نہیں لیتا۔ یہ لو اپنے نوٹ اور وعدے کے مطابق مجھے کھانا دو‘‘۔ جتنی دیر میں اس نے اپنی بات پوری کی وہ چاروں چھلاووں کی طرح دوڑتے دور نکل گئے۔ جوان نے ٹھان لی تھی کہ وہ انہیں چھوڑے گا نہیں۔ وہ بھی ان کے پیچھے دوڑنے لگا۔
پتھریلے میدانوں، جھاڑیوں، پہاڑیوں اور وادیوں سے گزرتا ہوا جوان ملاح ان کے پیچھے ایک غار میں جا پہنچا۔ جہاں چاروں طرف مصنوعی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ غار کی سطح چکنی اور ہموار تھی جس پر سنبھل سنبھل کر چلنا پڑرہا تھا۔ قاعدے سے بنی ہوئی باڑھیں اور خوش نما وضع کے ستون بھی تھے جنہیں انسانی ہاتھوں نے تراشا تھا۔ غار میں کئی طاق بھی بنے ہوئے تھے جن میں سونے چاندی کانسی اور نجانے کون کون سی دھاتوں سے بنے بادشاہوں کے قد آدم بت رکھے ہوئے تھے جن کی بادشاہت اب متروک ہوچکی تھی۔ ’’تم کیوں آئے ہو‘‘، سنہرے بادشاہ نے پوچھا ’’جانتے نہیں اب زمانے کو ہماری ضرورت نہیں۔ ہمارے ظلم کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں حالانکہ تمہارے نئے حکمران ہم سے کہیں زیادہ ظالم ہیں‘‘ غار میں بادشاہ کی آواز کی گونج سے دیگر مجسمے بھی جھنجھنا اُٹھے۔ ’’ہم نے تاج گنوادیے، عصائے شاہی چھین لیا گیا، شمشیر ہاتھ سے گئی اب اس نازنین کی حکومت ہے جس کا اثر تمام زندہ چیزوں کو توانائی سے محروم کررہا ہے جس کے ہاتھوں کے لمس سے موت نہیں آتی لیکن دنیا زندہ درگور ہوئی جا رہی ہے‘‘۔ بادشاہ کی باتوں نے جوان ملاح کا تجسس بڑھادیا۔ اس نے بادشاہ سے پو چھا ’’اس نازنین کا نام کیا ہے۔ اس سے ملاقات کیسے ممکن ہے۔ اس کی پہچان کیا ہے‘‘ سنہرے مجسمے نے غصے سے کہا ’’اس کا نام نیلم پری ہے۔ غار کے دوسرے سرے پر ایک پل ہے۔ وہ پل کے پار رہتی ہے۔ رہی اس کی پہچان، اسے پہچاننا کیا مشکل ہے۔ زمانہ اس کا دیوانہ ہے‘‘۔
جوان ملاح غار کے دوسرے سرے پر پہنچا ہی تھا کہ اسے دور پل کا شاہانہ دروازہ نظر آیا۔ اُس نے کسی پل میں ایسی آب وتاب نہ دیکھی تھی۔ وہ بلوری قیمتی سبز پتھروں سے بنا تھا۔ جوان نے بڑی عقیدت سے پل پر قدم رکھا اور پار اُتر گیا۔ پار اُتر کر اُس نے دیکھا یہاں تو دور دور تک لوگوں کا اِزدِحام ہے۔ لوگ کاغذ ی پرچیوں پر اپنا نام نشان لکھ کر مدح کے گیت گاتے ہوئے جگہ جگہ رکھے ڈبوں میں ڈال رہے تھے تب ہی انہیں اس وادی میں جانے کی اجازت ملتی جو نیلم پری کی وادی تھی جو ہمہ گیر طور پر زیادہ یقین کے ساتھ دنیا پر راج کررہی ہے۔ اکثریت کی طاقت۔ لوگ ریلوں کی صورت وادی میں اُتر رہے تھے۔ تمام سود وزیاں سے بے نیاز پری کی اُلفت کے سحر میں گرفتار۔
وادی میں اِدھر اُدھر گھومتا جوان ملاح ایک ہرے بھرے احاطے میں داخل ہوا۔ اُسے پری کو تلاش کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ وہ بربط بجارہی تھی۔ درختوں کے عالی شان جھنڈ کے سائے میں بیٹھی وہ آنکھوں اور دلوں پر جادو کررہی تھی۔ بربط دلربا انداز میں اس کے سینے سے لگا ہوا تھا۔ اس کی نازک انگلیاں اُسے چھیڑ کر دلکش نغمے تخلیق کررہی تھیں۔ پرندے بھی پوری ہم آہنگی اور شگفتگی کے ساتھ اس کی آواز میں آواز ملاکر گا رہے تھے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر جو بھی پری کے پاس جارہا تھا اس کا رنگ پیلا پڑتا جاتا تھا۔ بدنصیبی کے سائے ان پر دراز ہوتے جارہے تھے حالانکہ حسین پری ان ہی کے گیت گارہی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد جمع ہونے والی عظیم خلقت کی خاطرداری میں بیش قیمت نغمے پیش کررہی تھی لیکن یہ نغمے انسانی سکھ سے سراسر بیگانہ تھے۔ یہ نغمے لوگوں تک پہنچتے پہنچتے ڈرائونے دکھوں میں مجسم ہوکر لوگوں کی ایذا رسانی کا باعث بن رہے تھے۔ لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر جوان ملاح کا دل رحم سے لبریز ہوگیا۔
اتنے میں جھاڑیوں سے ایک خوش رو جوان لڑکی باہر آئی۔ پری نے اپنا بربط اس کے حوالے کردیا لیکن اس سے پہلے پری نے لڑکی کے لباس کو جگہ جگہ سے اس طرح پھاڑا کہ لباس میں ہونے کے باوجود وہ عریاں نظر آنے لگی۔ اس کی جوانی کی دلرُبائی اس طرح ظاہر ہونے لگی کہ لوگ اپنے دکھوں اور غموں کو بھلاکر اسے دیکھنے میں محو ہوگئے۔ لڑکی کے پیچھے پیچھے ایک سنہری دیو نمودار ہوا۔ پری نے سونے چاندی سے بنی اور موتیوں سے مزین بہت بڑی کرسی پر اسے بٹھادیا۔ حیرت انگیز طور پر وادی میں موجود تمام سونا چاندی، ہیرے قیمتی پتھر کھنچ کھنچ کر اس دیو کے قدموں میں ڈھیرہونے لگے۔ لوگوں کی جیبوں میں جو کچھ تھا ان کے پاس جو بھی سرمایہ تھا وہ ان سے جدا ہو ہو کر سنہری دیو کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ لیکن لوگ اس سے بے خبر تھے۔ وہ تو بس حسین پری کو دیکھنے میں محو تھے لوگوں کے انہماک کے ساتھ ساتھ جس کا جمال دوبالا ہوتا جارہا تھا۔ سب کو تسلیم تھا کہ حسین پری کے جمال کی کوئی نظیر نہیں۔
واپسی کے لیے جوان دریا کے کنارے پہنچا تو اس کی نائو موجود نہیں تھی۔ ساحل پر پڑے کسی ٹوٹے ہوئے جہاز کے تختوں کو جوڑ کر وہ اپنے جھونپڑے میں پہنچا تو اس کی بیوی بجھے ہوئے چولھے کے پاس بیٹھی آنسو بہارہی تھی۔ ’’میں کتنی نامراد ہوں کاش میں آج تمہیں باہر نہ جانے دیتی‘‘۔ ’’ہوا کیا؟‘‘ جوان نے نرمی سے پوچھا۔ ’’میں تمہاری راہ دیکھ رہی تھی کہ ساحل پر تمہاری کشتی ڈولتی نظر آئی۔ میں بھاگتی ہوئی گئی تو دیکھا کہ اس پر سے چار شیخی خور مسافر اُترے۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ وہ مجھ پر بیہودہ تعریفوں کے ڈونگرے برسارہے تھے وہ اس قدر شوخ اور بیہودہ باتیں کررہے تھے کہ مجھ سے مارے شرم کے سر نہیں اُٹھایا جارہا تھا‘‘ جوان نے بیوی کی دلجوئی کرتے ہوئے کہا ’’ہوسکتا ہے وہ محض مذاق کررہے ہوں‘‘۔ ’’نہیں ایسا نہیں تھا‘‘ بیوی نے جھرجھری لیتے ہوئے کہا ’’وہ مجھے چھو چھو کر گزر رہے تھے۔ وہ مجھ پر سرمایہ نچھاور کررہے تھے۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ دیکھو تم اپنی جوانی کو کام میں لائو۔ باہر نکلو۔ گھر چلانے میں اپنے شوہر کی مدد کرو۔ پرانی جکڑ بندیوں سے نکلو۔ ہم تمہیں آزادی دلانے کے لیے آئے ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک بولا ’’میں شخصی آزادی کی حفاظت کے لیے آیا ہوں۔
یہ تم نے کیا پرانی طرز کے لباس میں خود کو سر سے پائوں تک ڈھانپا ہوا ہے۔ اب تم آزاد ہو جو چاہو پہنو، جس طرح چاہے پہنو۔ پہنو یا نہ پہنو‘‘ دوسرا بولا ’’میں آزادی رائے ہوں‘‘۔ تیسرا بولا ’’میں ملکیت کی آزادی کا علمبردار ہوں تم جائداد بنانے میں پیسہ کمانے میں آزاد ہو‘، چھوڑو یہ حلال وحرام کی پا بندیاں، اپنا معیار زندگی بلند کرو‘‘۔ میں نے روتے ہوئے کہا ’’لیکن میرا دین، میرا عقیدہ اس کی اجازت نہیں دیتا‘‘، ان میں سے چوتھا بولا ’’اب تم عقیدے میں بھی آزاد ہو۔ رہا دین تو اس کو ہم نے دنیا کے معاملات سے جدا کردیا ہے‘‘۔ جوان ملاح نے رات کی گہری ہوتی تاریکی میں چراغ پر نظر کی تو اسے دیوار پر کچھ لکھا ہوانظر آیا۔
دیو استبداد جمہوری قبا میں پاے کوب
تُو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری