معاشرتی ذمے داریاں ادا کرنے والی خواتین کبھی حقوق سے محروم نہیں رہتیں

639

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)معاشرے کی تبدیلیوں میں عورت کا بہت بڑا حصہ ہے،تعلیم یافتہ اور مثبت سوچ رکھنے والی ماں ہو گی تو بہتر اور مثبت سوچ کی حامل نسل معاشرے میں پروان چڑھے گی۔جب عورت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی تو نتیجتاً” اسے اس کے حقوق سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ جو ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں انہیں حقوق خود بخود مل جاتے۔ان خیالات کا اظہار ناظمہ کراچی حلقہ خواتین جماعت اسلامی اسماء سفیر،وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی چیئر پرسن اسٹنٹ پروفیسر آزادی برفت، ڈیموکریٹک یوتھ فرنٹ کی جنرل سیکرٹری نغمہ شیخ، وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن کی اسسٹنٹ پروفیسر رضوانہ جبیں اوراسٹریٹ چلڈرن ویلفیئر آرگنائزیشن کی شریک بانی رمشا جواد نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کی چیئر پرسن اسسٹنٹ پروفیسر آزادی برفت کا کہنا تھا کہ معاشرے کی تعلیم و تربیت میں مرد و عورت دونوں کی یکساں ذمہ داری ہے۔کیونکہ ہمارے معاشرے میں گھر کے معاملات ہو یا اداروں میں فیصلہ سازی کا اختیار زیادہ مرد کے پاس ہوتا ہے۔عورت کی تعلیم وتربیت پر اس لیے زیادہ توجہ کا کہہ جاتا ہے کیونکہ وہ ایک ماں بھی ہوتی ہے اور ان کے ہاتھ میں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت۔اخلاق سازی سمیت تمام امور ہوتے ہیں۔اگر تعلیم یافتہ اور مثبت سوچ رکھنے والی ماں ہو گی تو ایک بہتر اور مثبت سوچ کی حامل نسل معاشرے میں پروان چڑھے گی۔کسی بھی گھر یا ادارے میں اگر کوئی باکردار خاتون ہو گی تو اس کے اثرات بھی نظر آئیں گے۔اسلام میں بھی واضح طور پر یہ بات کہی گئی کہ فیصلوں میں عورتوں کو بھی شامل کرو۔تعلیم و تربیت کے ساتھ ترقی کے بھی یکساں مواقع دیں تاکہ معاشرہ عدم توازن کا شکار نہ ہو۔عالمی دن کے موقع پر ذمہ داریاں اور حقوق دونوں اجاگر ہونے چاہییں۔عورت کے عالمی دن کے موقع پر جو سلوگن دیے جاتے ہیں ہم جیسی خواتین جو ایک ماں کے ساتھ ساتھ ملازمت سے بھی وابستہ ہیں ان کو دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ہمارے یہاں مردوں میں تعلیم کی شرح کم ہے جس کی بنا پر ان میں بالکل برداشت نہیں ہے۔ اور مزاج سے مختلف سوچ برادشت نہیں ہے بس جو کہہ دیا ہے وہی سب ہے۔ ہمیں عورتوں سے متعلق اس مہم کا انداز بدلنا ہوگا تاکہ ہماری آواز پر اثر ہو سکے۔عورتوں کے صحت کے مسائل کی وجہ سے اموات کافی زیادہ ہے‘عورتوں پر تشدد کی شرح بھی زیادہ ہے۔عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے اور آسانیاں فراہم کرنی چاہیں۔ہم سے وابستہ رشتوں کو ان کے حقوق ادا کریں تو یہ مسائل کافی حد تک حل ہو جائیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم اس زمین سے مردوں کو نکال دیں یا عورتوں کا الگ سیارہ بنا دیں تو یہ ناممکن ہے۔ہمیں اسی معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا سیکھنا ہو گا۔ ناظمہ کراچی حلقہ خواتین جماعت اسلامی اسماء سفیر کا کہنا تھا کہ جس طرح عورت کو دنیا کی خوبصورتی کہا جاتا ہے کہ اگر دنیا سے عورت کو نکال دیا جائے تو دنیا بے رونق نظر آتی ہے۔ بالکل اسی طرح سے معاشرے کی تبدیلیوں میں عورت کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اور تعلیم وتربیت کا تو مرحلہ ہی عورت کے زیر سایہ چلتا ہے۔ عورت کی سوچ اور عورت کے عزم و ارادے یہ تمام نئی نسلوں میں ہی منتقل نہیں ہوتے بلکہ اردگرد ہمارے چاروں طرف موجود باپ، بھائی، بیٹا شوہر بھی اس سے مکمل طور پر متاثر بھی ہوتے ہیں اور ان کے کرداروں میں بھی اس کے رنگ نظر آتے ہیں۔ عورت کا بہت گہرا اثر اپنے گھر پر ،خاندان پر پڑتا ہے۔ اسی طریقے سے معاشرے میں بھی وہی تبدیلیاں نظر آتی ہیں تو اس سے بات ثابت ہوتی ہے کہ عورت جو ہے وہ مرکزی کردار ہے اور اگر عورت کی سوچ جب وہ مثبت ہو تو معاشرے میں تبدیلی آنا شروع ہوجاتی ہے لیکن اگر عورت کی سوچ کسی بھی حساب سے چاہے وہ فیشن کے دائرے میں یا آزادی کے نام پر اس کو جو ہے بہلا پھسلا کر تبدیل کیا جائے اگر وہ عورت میں کم علمی کی وجہ سے وہ اس کو اپنے لیے بہتر سمجھتی ہے تو پھر وہی تبدیلی بھی معاشرے میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔ اور پچھلے20 سال میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو ہم تعلیم و تربیت کا رجحان انگلش میڈیم کی طرف جو تبدیل ہوا ہے وہ مردوں کے چاہنے سے نہیں ہوا بلکہ عورتوں ہی کی ڈیمانڈ پر تبدیل ہوا ہے۔ اور آپ یہ دیکھیں گے رسومات میں فیشن اور میک اپ، برینڈ کا کلچر آج اتنا حاوی ہوگیا ہے تو یہ بھی عورتوں ہی کی وجہ سے ہے اور تیسری چیز کے ہمارے معاشرے میں ہوٹلوں میں جاکر کھانے پینے کا کلچر بڑھا ہے اس کی وجہ بھی عورت کی ڈیمانڈ اور اس کا حصہ اس میں بہت زیادہ ہے۔ تو معاشرے کی تعلیم میں اور معاشرے کی تربیت میں ٹرینڈ سیٹر عورت ہی ہے۔عالمی دن کے حوالے سے عورت کی ذمہ داریاں اجاگر ہونی چاہییں۔ جب عورت اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتی تو نتیجتاً” اسے اس کے حقوق سے بھی روک دیا جاتا ہے۔ جب ایک بیوی اپنے فرائض اور ذمہ داری ادا نہیں کرے گی تو پھر اسے شوہر کی طرف سے وہ پوزیٹو کیئر اور توجہ کیسے ملے گی اور جب وہ بچوں کی تربیت صحیح نہیں کرے گی تو پھر بچے لاکھ مدرز ڈے منائیں لیکن وہ بچے ماں کو ماں تب سمجھیں گے جب ماں نے ان کی تربیت درست کی ہوگی۔ وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشن کی اسسٹنٹ پروفیسر رضوانہ جبیں کا کہنا تھا کہ کسی بھی معاشرے کی تشکیل میں خواتین کا کردار مردوں کے مقابلے میں بہت اہم ہوتا ہے۔ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درسگاہ بھی ہے اور تربیت گاہ بھی، یہ ایسی مؤثر درسگاہ ہے کہ یہاں کا سیکھا ہر سبق دیرپا ہوتا ہے۔یہ درسگاہ جتنے بلند معیار کی ہو گی معاشرے کا معیار بھی اسی قدر بلند ہو گاسماجی ماہرین کے نزدیک بھی معاشرتی اصلاح کا طریقہ یہی ہے کہ معاشرے کے افراد کو تعلیم یافتہ بنا دیا جائے۔تعلیم یافتہ خواتین عالمی سطح پر مثبت کردار ادا کر رہی ہیں، معیشت کی ترقی میں خواتین کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔معاشرے کی ترقی اور تشکیل میں خواتین کے کردار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ خواتین مجموعی معاشرے میں تعداد کے لحاظ سے مردوں کے تقریباً مساوی ہیں اور معاشرے کی بنیادی اکائی یعنی گھر خواتین کے دائرے کار کا محور ہوتا ہے لہذا اس بنیادی اکائی کو مستحکم کرنے میں خواتین کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔دنیا کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے لہذا عالمی سطح پر تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں خواتین کے لیے ترقی کے مواقع فراہم کرنا چاہیے۔قومی اور بین الاقوامی سطح پر خواتین کے لیے آگہی فراہم کرنا ضروری ہے جس سے پسماندگی اور اقتصادی مسائل حل کرنے میں مدد مل سکے گی۔خواتین کے حقوق کے عالمی مطالبے کو عیاشی قرار دینا بنیادی طور پر نامناسب ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ دنیا بھر میں اگر خواتین کے حقوق کے مطالبے کو نظر انداز کیا گیا تو دنیا کو درپیش مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے، کیونکہ کسی بھی قوم کی خواتین کا اس قوم کی تعلیم و تربیت میں بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ڈیموکریٹک یوتھ فرنٹ کی جنرل سیکریٹری نغمہ شیخ کا کہنا تھا کہ معاشرے میں تعلیم و تربیت سب سے کردار ہے۔معاشرے میں اگر تعلیم نہیں ہو گی تو کسی بھی شعور پیدا نہیں ہو گا۔پرانے وقتوں میں جب تعلیمی ادارے بہت کم تعداد میں تھے تب لوگوں میں زیادہ شعور تھا۔بانسبت آج کی خواتین میں۔تعلیم یافتہ اور شعور رکھنے والی خواتین ہی معاشرے میں تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔اگر یہ کہہ جائے کہ خواتین کو سیاسی شعور بھی دینا چاہیے۔تو بے جا نہ ہو گا۔اس کی وجہ سے خواتین اپنے حقوق کا پتہ چلتا اور اسے حاصل کرنے کے لیے وہ کوشش بھی کرتی یے۔معاشرے میں تعلیم و تربیت کا اگر آغاز کا کہہ جائے تو وہ ماں کی گود سے ہی اس کا آغاز ہوجاتا یے۔بعدازاں استاد اور دیگر افراد اس کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اسٹریٹ چلڈرن ویلفئیر آرگنائزیشن کی شریک بانی رمشا جواد کا کہنا تھا کہ ماں کی گود انسان کی اوّلین درس گاہ ہو تی ہے۔ ماوں کی تربیت جتنے بلند معیار کی ہوگی، اگر جذبہ ایمانی کی سچائی کے ساتھ ہوگی اور اسلام کی تعلیمات کی روح کے مطابق ہوگی تو معاشرہ بھی اسی معیار کا ہوگا۔ لہٰذا اوّل تو اگر ہر خاتون اپنی ذات کی اصلاح پر توجہ دے تو پھر اس طرح عورتیں معاشرے کی اصلاح پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔ خانگی زندگی کا دار و مدار صنفِ نازک پر ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے عورتوں کو خانگی اور معاشرتی ہر سطح پر ان کا صحیح مقام و درجہ عطا فرمایا۔ خانگی اور معاشرتی ہر دو سطح پر عورت کو انسانی عظمت و احترام سے سرفراز کیا۔ دراصل کسی معاشرے میں عورت کو جو مقام عطا کیا جائے وہ اس لیے بہت بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ایک تو اس مقام کی بہ دولت خود عورت کی ذات، شخصیت اور معاشرے میں اس کے کردار کا تعین ہو تا ہے، دوسرے لازمی طور پر خود پورا معاشرہ بھی متاثر ہوتا ہے۔اور اگر عورت کو اس کا صحیح مقام و مرتبہ نہ دیا جائے تو ناصرف معاشرہ اس کی قابلیت و صلاحیت سے استفادہ کرنے سے محروم رہتا ہے بل کہ عورتیں اپنے مخصوص دائرہ کار یعنی گھر میں بھی خاطر خواہ اور بھرپور کردار ادا نہیں کرسکتیں۔