کسان تحریک بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کرسکتی ہے

390

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) بھارت میں کسانوں کا احتجاج شکا گو کے بعد محنت کشوں کا بڑا مظاہرہ ہے‘ کسانوں کی احتجاجی تحریک نے ہندوتوا کی آئیڈیالوجی کو چیلنج کیاہے‘ یہ دائیں بازو کی عالمگیریت کو توڑ سکتی ہے‘حکومت اور کسانوں میں فاصلے بڑھ رہے ہیں‘ بی جے پی کے رہنماؤں نے سکھوں کو دھمکانے کی کوشش کی جس سے کسان تحریک کا رخ بھارتمیں علیحدگی پسند تحریک کی جانب مڑ سکتا ہے‘ مودی حکومت کا ایجنڈا مذہبی مفاد پرستی پر مبنی ہے‘ مودی حکومت نے مذہبی تعصب کا جو بیج بویا ہے‘ اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ عوام ہر مسئلے کو بھول کر مودی کا ہی نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں‘ مودی کو سیاسی زوال کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ ان خیالات کا اظہار سفارت کار عارف کمال، جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر راشد نسیم، شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر شائستہ تبسم اور برطانیہ میں مقیم معروف بھارتی دانشور فہیم اختر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا بھارت میں کسانوں کا دھرنا مودی کے سیاسی زوال کا سبب بنے گا؟‘‘۔ عارف کمال نے کہا کہ کسانوں کی احتجاجی تحریک نے ہندوتوا کی آئیڈیالوجی کو چیلنج کیا ہے اور یہ اپنے عروج کی طرف بڑھ رہی ہے ‘ یہ ایک نئے عمل کی شروعات اور سیاسی قوت کی پیدائش کا آغاز ہے‘ یہ دائیں بازو کی عالمگیریت کو توڑ سکتی ہے‘ آ ئندہ حالات کو دیکھتے ہیں کہ یہ تحریک کون سی کروٹلیتی ہے‘ ہندوتوا اپنی اننگ اور قانون کی بالادستی کے بارے میں اپنے جابرانہ رویہ کا مظاہرہ کر چکی ہے‘ دنیا ان کے اقلیت دشمن کھیل کا مشاہدہ کر رہی ہے‘ بھارت بڑی عالمی تجارتی منڈی ہونے کے سبب ظلم اور ناجائز فیصلوں کو دنیا سے چھپا نہیں پائے گا۔ راشد نسیم نے کہا کہ بھارت میں کسانوں کا احتجاج شکا گو کے بعد محنت کشوں کا بڑا مظاہرہ ہے‘ گزشتہ 10سال میں ایسے واقعات رونما ہوئے جو اس سے قبل200 سال میں بھی نہیں دیکھے گئے ان میںامریکی صدر کی حلف برداری، امریکی پارلیمنٹ پر حملہ، طالبان اور امریکا کے مذاکرات جبکہ مودی حکومت نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنایا ہے یہ تاریخ کے بڑے واقعات میں شمار ہوتا ہے‘ کسان بھی کئی ماہ سے مظاہرے کر رہے ہیں‘ ان مظاہروں میں نچلی ذات کے ہندو، کمیونسٹ پارٹی اور سکھ مذہب کے پیروکاروں کی بڑی تعداد شامل ہے‘ بھار ت نے کسانوںکا حق سلب کرنے کے لیے جو قانون سازی کی ہے‘ کسان صرف ان اصلاحات کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے بلکہ لگتا ہے کہ یہ تحریک بھارت کے پورے معاشی ڈھانچے کو تبدیل کردے گی‘ بھارت کے سیاسی حلقوں کو اس اَمر پر تشویش ہے کہ کسانوں کی احتجاجی تحریک میں رفتہ رفتہ تشدد کا عنصر بھی داخل ہو رہا ہے‘یہ احتجاج ایک بغاوت کی صورت میں پورے بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے‘ زوال ایک نیند کی مانند ہوتا ہے‘ انسان کو نیند کب اورکس وقت آجائے کچھ پتا نہیں چلتا‘ اس ہی طرح زوال کے وقت کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ شائستہ تبسم نے کہا کہ بھارت میں اصلاحات کے نام پر کسان دشمنی کی جا رہی ہے‘ غریب کسانوںکو اپنی زمین جائداد سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے جس کی وجہ سے حکومت اور کسانوں میں فاصلے بڑ ھ رہے ہیں‘ اس تمام تر صورت حال میں کسانوں کے ساتھ سکھ مذہبی رنگ پید اہوگیا ہے ‘ سکھ مذہب اور اس کے خلاف ہندوتوا کے بیانات سے خالصتان تحریک کو تقویت مل رہی ہے‘ بی جے پی کے رہنماؤں نے سکھوں کو دھمکانے کی کوشش کی ہے جس سے کسان تحریک کا رخ بھارت میں علیحدگی پسند تحریک کی جانب مڑ سکتا ہے‘ ایسٹ پنجاب کے علاقوںمیں بہت تناؤ پایا جاتا ہے‘ مسلمان سمیت دیگر اقلیتیں مودی حکومت سے خائف نظر آتی ہیں‘ کسان تحریک کو بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس، کمیونسٹ پارٹی اور بعض غیرسرکاری تنظیموں کی مکمل حمایت حاصل ہیجو مودی کو یہ پیغام ہے کہ آئندہ الیکشن میں بی جے پی کا دوبارہ حکومت بنانا ناممکن ہے ۔ فہیم اختر نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ کسانوںکا احتجاج مودی کی سیاست پر اثر انداز ہوگا‘ مودی حکومت کا ایجنڈا مذہبی مفاد پرستی پر مبنی ہے یعنی کہ مذہب کے نام پر عوام کو گمراہ کر کے حکومت کرنا اور اس معاملے میں مودی گزشتہ10 سال سے کامیابی سے صوبائی اور مرکزی حکومت چلا رہا ہے‘ کسانوں کے احتجاج، کشمیر، اقلیتوںکے مسائل، بے روزگاری، مہنگائی اور دیگر مسائل کا ردعمل ضرور آتا ہے لیکن یہ اس نہج پر نہیں ہے کہ جس کا اثر مو دی حکومت پر ظاہر ہو کیونکہ مودی حکومت نے مذہبی تعصب کا جو بیج بویا ہے‘ اس کی جڑیںاتنی مضبوط ہیں کہ یہ ایک جذباتی اور مذہبی مسئلہ بن گیا ہے‘ عوام ہر مسئلے کو بھول کر مودی کا ہی نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں‘ کسانوں کے مطالبات جائز ہیں‘ ان کی حق تلفی کی جا رہی ہے‘مودی کی پالیسی پر تھوڑی سی دراڑ ضرور پڑی ہے لیکن اس صورت حال میں مودی کے سیاسی زوال کا کہیںکوئی اندیشہ نظرنہیں آرہا ہے بلکہ اس طرح کے مسائل سے مودی کی ہندوتوا پالیسی کو مزید تقویت مل رہی ہے‘ آپ کو آج سکھوں میں جو غصہ نظر آرہا ہے اس کے بہت سے محرکات ہیں ‘ آئندہ کسی بھی قسم کے ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کی اگر شکست ہوتی ہے تو یہ کسانوں کی تحریک کی فتح کے مترادف ہو گی۔