عمران خان گھبراہٹ کا شکار ہوگئے

867

وزیراعظم عمران خان ہفتے قومی اسمبلی میں اپنے حمایتی ارکان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں گے۔ اس مقصد کے لیے صدر مملکت عارف علوی نے 6 مارچ کی دو پہر بارہ بجے اسمبلی کا اجلاس طلب کیا ہے۔ وزیراعظم نے جمعرات کو ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی واضح کردیا تھا کہ اگر اعتماد کا ووٹ نہ ملا تو اپوزیشن میں بیٹھوں گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ قوم کو بار بار گھبرانا نہیں کی تاکید کرنے والے وزیراعظم عمران خان قوم سے خطاب کرتے ہوئے خود ہی گھبرائے ہوئے اور جذباتی دکھائی دے رہے تھے۔ ان کے ہنگامی و جذباتی اندازِ تقریر سے یہ واضح ہورہا تھا کہ سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن کے رہنما و سابق نااہل وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو ڈالے جانے والے زائد ووٹوں کا انہیں صدمہ ہے اور اس دکھ کی وجہ سے انہیں اپنی وزارت عظمیٰ کی کرسی ہلتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ اسی غیر یقینی ذہنی کیفیت میں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہفتے کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کردیا۔ لیکن وزیراعظم نے قومی اسمبلی سے جس اعتماد کے ووٹ کی بات کی ہے اس کے بارے میں ممتاز صحافی مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم بطور علامتی اور یا بطور نمونا اپنے اراکین قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کی بات ہے۔ خیال ہے کہ وزیراعظم کی درخواست پر اعتماد کے ووٹ کے اظہار کے لیے بلائے گئے اس اجلاس کا اپوزیشن کے اراکین بائیکاٹ کردیں گے۔ کیونکہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اپوزیشن کی جماعتوں کا وزیراعظم عمران خان سے استعفا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اپوزیشن نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا تو اجلاس کا انعقاد بھی مشکل ہوسکتا ہے، ایسی صورت میں سرکاری ارکان کی موجودگی میں وزیراعظم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود پارلیمانی سیاست کے حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
بہرحال وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے یہ بھی واضح ہورہا تھا کہ انہیں یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے زیادہ اپنے مشیر عبدالحفیظ شیخ کی ناکامی کا دکھ ہے۔ وزیراعظم نے ان کی پارٹی کے امیدواروں کے 15 ووٹ کی کمی کا جو ذکر کیا ہے یقینا انہیں ان ووٹوں کا بھی صدمہ ہے۔ وزیراعظم عمران سینیٹ کے الیکشن کے نتائج سے سے مایوس بھی نظر آرہے تھے شاید انہیں خفیہ بیلٹنگ کی صورت میں ایسے ہی نتیجے کا خدشہ تھا۔ یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہم نے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ پر کروانے سے متعلق بل پیش کیا، جب ساتھ نہیں ملا تو ہم یہ کیس عدالت عظمیٰ لے گئے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی کہا کہ پیسہ چلتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کی‘‘۔ قوم سے خطاب کے دوران عمران خان کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) والوں کو پیغام ہے کہ اقتدار گیا تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ اقتدار کے خاتمے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں واضح رہے کہ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چاہے اپوزیشن میں ہوں، یا اسمبلی سے باہر ہوں، ان کو نہیں چھوڑوں گا، میں ان کے خلاف قوم کو باہر نکالوں گا۔ جب تک زندہ ہوں ملک میں قانون کی بالادستی کے لیے کام کروں گا۔ وزیراعظم کے ان جملوں کے بعد پوری قوم کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ وزیراعظم کی سیٹ ’’اب غیر مستحکم‘‘۔ ہو چکی ہے کیونکہ وزیر ِاعظم عمران خان نے خود اپنی پریشانیوں کا اظہار کردیا ہے۔ خیال رہے کہ وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد آرمی چیف کی عمران خان سے ملاقات کی خبروں کو بھی سیاسی حلقے اہمیت دے رہے ہیں۔