گفتار نہیں کردار

1087

وفاقی مجلس شوریٰ کے ایوان بالا کے تین مارچ کو منعقدہ انتخابات میں ہونے والی سبکی اور اپنی کابینہ کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے امیدوار سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے مقابلہ میں شکست کا سارا غصہ وزیر اعظم عمران خاں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر نکالا ہے۔ جمعرات کی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام لگایا کہ کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے اپنی نشریاتی تقریر میں انہوںنے کہا کہ ایوان بالا کے انتخابات میں کروڑوں روپے دے کر ارکان اسمبلی کو خریدا گیا، صاف شفاف انتخابات کا انعقاد، الیکشن کمیشن کی بہت بڑی آئینی ذمہ داری ہے، سینٹ الیکشن کا خفیہ رائے دہی سے انعقاد جمہوری نظام کے لیے تباہ کن ہے۔ سپریم کورٹ نے موقع دیا تھا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جا سکتا تھا؟ اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیںان سب کا پتہ چل جاتا۔ پیسے دے کر اوپر آنا کونسی جمہوریت ہے؟ انہوں نے الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی؟کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے؟ پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپروں کی مخالفت کیوں کی؟ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے۔ جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا؟ کیا وہ حاتم طائی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ جب وزیر اعظم اور وزیر چوری کرتا ہے تو ملک کو مقروض کر دیتا ہے۔ جیلوں میں جو غریب چور ہیں وہ سارے مل کر بھی 30 ارب روپے چوری نہیں کر سکتے۔ گیلانی کے الیکشن کا مقصد مجھ پر عدم اعتماد کی تلوار لٹکانا اور اس کے بدلے این آر او لینا تھا، اب میں ہفتہ کے روز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہا ہوں۔ ارکان اسمبلی ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ اگر میں اہل نہیں تو کھل کر اس کا اظہار کریں میں ان کی عزت کروں گا، ارکان اسمبلی پیسہ لے کر اپنی آخرت تباہ نہ کریں اگر اقتدار چلا جاتا ہے تو میرا کیا نقصان ہو گا؟ مجھے سرمایہ جمع نہیں کرنا اور جائیداد نہیں بنانی ہے۔ میں اقتدار سے باہر بھی ہو جائوں تب بھی انہیں نہیں چھوڑوں گا انہیں قوم کا پیسہ واپس کرنا ہو گا۔ ہمارا مدینہ کی ریاست کا بنیادی نظریہ قانون اور انصاف کی فراہمی ہے جہاں طاقتور اور کمزور دونوں کو قانون کی گرفت میں لایا جا سکے۔ یوسف رضا گیلانی کا بیٹا پیسوں سے لوگوں کے ضمیر خرید رہا تھا جس کی ویڈیو سامنے آئی اور سب نے دیکھی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ کرپشن ختم کرنے کے لیے قانون نہیں بلکہ معاشرے اور قوم کا اہم کردار ہوتا ہے، جب تک معاشرہ کرپٹ ٹولے کو قبول کرتا رہے گا کرپشن ختم نہیں ہو سکتی، ساری قوم نے دیکھا کہ ایک کرپٹ آدمی کو پیسے سے سینیٹر منتخب کیا گیا۔جیل سے اربوں روپے کرپشن کرنے والا باہر نکلتا ہے تو اس پر پھول نچھاور کئے جاتے ہیں، یہ ہمارے معاشرے میں بدعنوانی کو ظاہر کرتا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا جب تک زندہ ہوں قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھوں گا، اللہ کی مدد سے یہ ملک عظیم بنے گا ایسا تب ہی ممکن ہو گا جب یہ بڑے بڑے ڈاکو جیل میں ہوں گے۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں جو باتیں کی ہیں وہ یقینا اصولی اور کانوں کو خاصی بھلی محسوس ہوتی ہیں انہوں نے جن خرابیوں کی نشاندہی کی ہے وہ بھی بڑی حد تک درست ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جس منصب پر وہ گزشتہ اڑھائی برس سے زائد عرصہ سے براجمان ہیں، وہاں تشریف فرما ہوتے ہوئے کیا صرف خرابیوں کی نشاندہی سے ان کی ذمہ داری ادا ہو جاتی ہے، نہیں، ہر گز نہیں…!!! جناب عمران خاں جب تک اقتدار سے باہر تھے ان کے منہ سے نظام کی برائیوں اور خرابیوں کا تذکرہ برا محسوس نہیں ہوتا تھا مگر اب وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں، اب صرف باتوں سے لوگوں کو بہلایا نہیں جا سکتا، اب اگر کوئی خرابی اور برائی نظام میں پائی جاتی ہے تو وہ براہ راست اس کے ذمہ دار ہیں، حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور جملہ کہ ’’دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر کو اس کا جواب دینا ہو گا‘‘ جناب عمران خاں کی رہنمائی کے لیے کافی ہونا چاہئے کہ وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر استوار کرنے کے دعوے دار ہیں۔ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ ریاست مدینہ ایک دن میں نہیں بنائی جا سکتی مگر اڑھائی برس سے اس سمت میں سفر کا آغاز بھی تو نہیں ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ انتخابی نظام کی جس خرابی کا رونا جناب وزیر اعظم نے اپنی نشری تقریر میں رویا ہے اس کی اصلاح کے لیے حکومت، عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن سمیت کسی بھی ادارے نے اپنا کردار موثر طور پر ادا نہیں کیا، عدالت عظمیٰ نے اس ضمن میں واضح فیصلہ، ہدایات اور رہنمائی فراہم کرنے کی بجائے گیند الیکشن کمیشن کی جانب اچھال کر اپنا پہلو بچانے میں ہی عافیت جانی، الیکشن کمیشن نے بھی وقت کی کمی کو جواز بناتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی حالانکہ الیکشن کمیشن کا کام جیسے تیسے انتخابات کرانا ہی نہیں، انہیں ہر صورت صاف، شفاف، غیر جانبدارانہ اور قابل اعتماد بنانا بھی الیکشن کمیشن کے فرائض میں شامل ہے، خاص طور پر جب انتخابات سے عین ایک دو روز قبل ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ پوری قوم کے سامنے آ گئی تھی تو ارکان کی ضمیر فروشی کو روکنے کے لیے کمیشن کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا مگر کمیشن نے اس سلسلے میں مکمل چشم پوشی سے کام لیا… جہاں تک وزیر اعظم کا تعلق ہے انہیں بھی جب تین سال قبل ارکان کی خرید و فروخت کا علم ہی نہیں عملی تجربہ ہو گیا تھا تو کیا ان کا یہ فرض نہیں تھا کہ 2018ء کے انتخابات میں امیدواروں کی نامزدگی اور پارٹی ٹکٹ تقسیم کرتے ہوئے صاف ستھرے کردار کے حامل دیانتدار اور قابل اعتماد لوگوں کو نامزد کرتے مگر کیا وزیر اعظم انکار کر سکتے ہیں کہ انہوں نے اعلیٰ صفات اور بہتر کردار سے زیادہ نام نہاد ’’الیکٹیبلز‘‘ کو پارٹی کا امیدوار /نامزد کرنے کو ترجیح دی، آج اگرچہ وہ اصولوں کی خاطر اقتدار کو تج دینے کی باتیں کر رہے ہیں مگر اس حقیقت کو وہ بہرحال جھٹلا نہیں سکتے کہ 2018ء کے انتخابات سے قبل وہ جن لوگوں کو ڈاکو، چور، بدمعاش، نا اہل اور ناقابل اعتبار کے القابات سے نوازتے رہے تھے، انتخابات کے بعد صرف اور صرف اقتدار کے حصول کی خاطر انہی القابات اور صفات کی حامل ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور شیخ رشید جیسے لوگوں کو اپنی حکومت کی بیساکھیوں کے طور پر ہی قبول نہیں کیا بلکہ کابینہ کی اہم وزارتیں بھی ان کے سپرد کیں… جناب وزیر اعظم آپ کا ارشاد بجا کہ الیکشن کمیشن ارکان قومی اسمبلی کی ضمیر فروشی کو روکنے میں ناکام رہا ہے مگر یہ بھی تو تسلیم کریں کہ آپ اپنے ارکان اسمبلی کو اپنی قیمت لگوانے سے روک نہیں سکے۔ پھر جس عمل سے آج آپ کو بہت تکلیف پہنچی ہے کیا کچھ ہی ماہ قبل چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر آپ نے حزب اختلاف کے ارکان کو اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف رائے دینے پر مجبور کر کے تحریک کو ناکام نہیں بنوایا تھا، یہ مان بھی لیا جائے کہ آپ نے لوگوں میں رقم تقسیم نہیں کی تھی تب بھی کیا دھونس، زور اور زبردستی کے ذریعے لوگوں سے پارٹی پالیسی کے برعکس رائے دلوانے کو جائز اور درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ جناب وزیر اعظم ایوان بالا کے حالیہ انتخابات میں اپنی اس ادا پر بھی غور فرمائیے کہ نشری خطاب میں جن لوگوں پر بدعنوانی اور لوٹ مار کا الزام لگاتے ہوئے آپ نے ’’غدار‘‘ قرار دیا ہے انہیں غداروں سے مک مکا اور سودے بازی کر کے پنجاب میں اپنی اکثریت کو یقینی بنانے میں آپ نے قطعاً کوئی عار محسوس نہیں کی۔