بلیک آؤٹ ہتھیار: ہلاکتیں نہیں تباہ کن شکست؟

901

پاکستان کے سابق ڈی جی آئی ایس پی آر آصف غفور نے فروری 2020ء میں پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ جس ٹیکنالوجی کے لیے بھارت دنیا کی منتیں کر رہا ہے، پاکستان کے پاس وہ ٹیکنالوجی موجود ہے پاکستان کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی امریکا، اسرائیل کے پاس بھی ہے لیکن پاکستان، چین اس ٹیکنالوجی میں ان سے بہت آگے ہیں۔ ہم نے اپنے انہیں کالموں میں لکھا تھا کہ بھارتی ڈیم کو ختم کرنے میں بھی اسی الیکٹرو میگنیٹک پلزویپن کا استعمال کیا گیا ہے۔
بھارت یہ کہتا رہا ہے کہ اکتوبر 2020ء کو ممبئی میں ہونے والے بلیک آؤٹ کے دوران، چین، پاکستان اپنے الیکٹرو میگنیٹک پلزویپن کے تجربے کر رہے ہیں لیکن بھارت کے تمام تر ہتھیاروں کی دوڑ کے باجود ممبئی کو مکمل طور سے بلیک آؤٹ کر دیا گیا اور اب عالمی میڈیا یہ رپورٹ دے رہا ہے پاکستان چین نے مل کر 8منٹ 43سیکنڈ میں پورے ممبئی کو مکمل طور سے بلیک آؤٹ کر دیا اور اس ہتھیار کے تجربے سے پو ری دنیا کو مکمل طور سے بلیک آؤٹ کرکے بند کیا جاسکتا ہے۔
یہ صورتحا ل کب، کیسے اور کیوں پیدا ہوئی۔ یہ صورتحال شام میں حکومت مخالف افراد اور شامی عوام کے خلاف خودکار ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور اس سے ہزاروں افراد کی ہلاکت کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ چین کو اس بات کا علم تھا کہ ان خودکار ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے لیے ان سے زیادہ بہتر ہتھیار بنانے کے بجائے ان کو ناکارہ بنانے پر توجہ دی جائے۔ امریکا کے F-35 کے مقابلے میں چین کے پاس S16 میزائل نما جہاز موجود ہیں لیکن اس پر ہونے والے اخراجات اور تباہی بہت زیادہ ہے اس لیے طے کیا گیا کہ دنیا بھر کے ریموٹس اور سٹیلائٹس کنٹرول ہتھیاروں کو ناکارہ بنانے کے لیے بجلی کی سپلائی منقطع کرنا بھی ایک اہم کام ہے، اس کے لیے ضروری تھا کہ کسی ملک کے نیشنل گریڈ کو پگھلا دیا جائے جس کے بعد کچھ عرصے کے لیے بجلی کی سپلائی بند ہو جائے گی۔ امریکا نے شامی جنگ سے یہ پتا لگایا کہ چین، روس سے امریکا کو خطرات لاحق ہیں جس کے بعد امریکا نے مصنوعی ذہانت سے لیس ہتھیاروں کی منظوری دے دی ہے اس سلسلے میں امریکی صدر اور کانگریس کے لیے مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی آرٹی فیشل اِنٹیلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت کے حامل خودمختار ہتھیاروں کے متعلق عالمی پابندی کے مطالبات کو مسترد کر دیں۔ اے آئی ’کسی فیصلے پر پہنچنے کے لیے درکار وقت‘ کافی حد تک گھٹا دے گا اور ایسے عسکری فیصلوں کی ضرورت پڑے گی جو انسان اے آئی کی مدد کے بغیر نہیں لے سکے گا۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس اور چین کی جانب سے ایسے کسی معاہدے کا پاس رکھنے کا امکان نہیں ہے۔ اس سے اس بات کا خدشہ بڑھ گیا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو اس کے نتیجے میں اسلحے کی ایک ’غیر ذمے دارانہ‘ دوڑ شروع ہو جائے گی۔ کمپین ٹو اسٹاپ کِلر روبوٹس (قاتل روبوٹس کے خاتمے کی مہم) کے ترجمان پروفیسر نوئل شارکی کہتے ہیں کہ ’یہ ایک وحشت انگیز اور خوفناک رپورٹ ہے جس سے کسی کو قتل کرنے کے فیصلے میں اے آئی کے استعمال کو فروغ مل سکتا ہے‘۔
’اے آئی کے تجربہ کار سائنسدان دنیا کو خبردار کر رہے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزیوں کا موجب ہوگا‘۔ امریکی سینیٹ کو دی گئی رپورٹ میں ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اگر آٹونومس ویپنز سسٹمز یعنی خودمختار ہتھیاروں کے نظاموں کی آزمائش ٹھیک طور پر کی جائے اور ان کے استعمال کی منظوری انسانی کمانڈر دے تو پھر یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق ہوگا۔ 750 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ کا بیش تر حصہ چین کو 2030ء میں منصوعی ذہانت کے شعبے میں عالمی لیڈر بننے سے روکنے پر مرکوز ہے۔ رپورٹ میں اعلیٰ فوجی حکام کو خبردار کیا جا چکا ہے کہ اگر چین مصنوعی ذہانت والے نظاموں کو تیزی سے مکمل کر لے تو ’امریکا بہت جلد دنیا سے اپنی فوجی تکنیکی برتری کھو سکتا ہے‘، مثال کے طور پر اے آئی کے ذریعے ایک وقت میں ایک ڈرون کے بجائے وہ دشمن ملک کی بحریہ پر ڈرونز کے جھُنڈ بھیج کر حملہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ دنیا کے بڑے ملکوں میں ’لمبے عرصے سے دفاع کی توجہ ہارڈویئر یعنی بحری اور ہوائی جہازوں اور ٹینکوں پر مرکوز تھی، مگر اب سافٹ ویئر ہتھیاروں کی تیاری پر امریکا اور چین کام کر رہے ہیں۔ امریکی سینیٹ سے کہا جارہا ہے کہ افواج اے آئی کے جدید نظاموں سے لیس ہونے سے ہماری افواج جنگ کی پیچیدگیوں میں مفلوج ہو کر رہ جائیں گی‘۔ اے آئی جنگ کے تمام حربی پہلوؤں کو بدل کر رکھ دے گی۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ناقص طریقے سے تیار کردہ اے آئی نظام، جنگ کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے، مگر ’اے آئی سے لیس دشمن کے مقابلے میں بغیر اے آئی کے میدان میں اُترنا بربادی ہوگی‘۔ وائٹ ہاؤس کو مشورہ دیا گیا ہے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے معاملے میں وہ ماسکو اور بیجنگ پر دباؤ ڈالے کہ وہ بھی اس سلسلے میں کھل کر اپنے عزم کا اظہار کریں۔ سینیٹ سے کہا گیا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے صدر کی واضح منظوری لازمی ہوگی۔ اطلاعات ہیں کہ صدر بائیڈن بھی ٹرمپ کی طرح منظوری دیں۔ امریکی فوج پہلے ہی مختلف روبوٹِک سسٹم کی آزمائش کر رہی ہے، مگر رپورٹ میں آئی اے کو منصوبہ بندی اور رابطہ کاری کے مراحل میں بھی شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیشن نے مارچ 2019 میں اپنا جائزہ شروع کیا تھا اور حتمی رپورٹ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں سینیٹ میں پیش کی گئی تھی۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ امریکا اب تک آئی سے لاحق خطرات کو نظر انداز کر تا رہا ہے۔ اے آئی سے متعلق غیر فوجی تحقیق اور ترویج کے لیے مختص رقم بھی 2026 تک دگنی یعنی 32 ارب ڈالر کی جانے چاہیے۔ ان میں مائکرو سافٹ کو دیا جانے والا 10 ارب ڈالر کا ٹھیکہ بھی شامل ہے، جسے ایمازون عدالت میں چیلنج کرچکا ہے۔
چین، امریکا اور اس کے اتحادی بھارت کے تمام پروگرام کو خاک میں ملاتے ہو ئے ہتھیار ناکارہ بنانے کی ٹیکنالوجی کے بڑھاوے میں مصروف ہے۔ چین کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکا کے پاس بھی موجود ہے لیکن چین کو اس سلسلے میں اس طرح برتری حاصل ہے کہ چین کے پاس ان حملوں سے بچاؤ کی ٹیکنالوجی بھی ہے اور یہ ٹیکنالوجی امریکا اسرائیل کے پا س نہیں۔ امریکا بھارت بیکا معاہدے میں بھی امریکا نے چین کو بلیک آؤٹ ٹیکنالوجی نہیں دی اور بھارت امریکا سے مانگ رہا ہے۔ لیکن پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار کہہ چکے ہیں کہ بھارت کو یہ ٹیکنالوجی کے ملنے سے خطے میں عدم استحکام اور طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ امریکا بھارت دوستی کے باوجود بائیڈن چین کو اپنا دشمن کبھی نہیں بنا سکتا اس کی ایک وجہ پاکستان چین عسکری اتحاد بھی ہے۔