بیس پچیس سال حکمرانی کا خواب

373

عمران خان تبدیلی کا نعرہ لگا کر برسراقتدار آئے تھے۔ 2018ء کے انتخابات جیسے بھی ہوئے، بہرکیف ان انتخابات کے نتیجے میں اقتدار کا ہُما عمران خان کے سر پہ آن بیٹھا اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے ہاتھ میں حکومت کی باگیں آگئیں۔ وہ اس مقصد کے لیے بائیس سال تک مستقل مزاجی سے جدوجہد کرتے رہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے لیے کوئی چور دروازہ تلاش کیا ہے۔ یہ الزام اپنی جگہ کہ ملک کی اصل ہیبت ِ مقتدرہ نے ان کی سرپرستی کی اور انہیں اقتدار دلانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان نے ملک میں رائج جمہوری نظام کو قبول کرتے ہوئے اس کے تحت انتخابات میں حصہ لیا اور وہ تمام شرائط پوری کیں جو حکومت حاصل کرنے کے لیے ضروری تھیں۔ تحریک انصاف بلاشبہ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت بن کر اُبھری تھی لیکن اسے وہ اکثریت حاصل نہ تھی جو حکومت سازی کے لیے مطلوب تھی۔ چناں چہ اس نے کئی چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر یہ مقصد حاصل کیا۔ ملک میں رائج جمہوری نظام کے تحت ہر پانچ سال بعد نئے انتخابات ہوتے ہیں اور برسراقتدار جماعت اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نیا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے عوام سے رجوع کرتی ہے جب کہ اس کی حریف جماعتیں حکومت کی کمزوریوں اور ناکامیوں کو اُجاگر کرکے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ ایک صحت مند جمہوری مقابلہ ہے جو ہر پانچ سال بعد ملک میں منعقد ہوتا ہے۔ اگر عوام کے ووٹوں کو چوری نہ کیا جائے، انتخابی نتائج میں گڑبڑ نہ کی جائے اور انہیں من و عن تسلیم کرکے اقتدار کامیاب جماعت کے سپرد کردیا جائے تو ہم بجا طور پر اِسے ایک منتخب نمائندہ حکومت قرار دے سکتے ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ ایسے صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات بہت کم ہوئے ہیں بلکہ عملاً ہوئے ہی نہیں لیکن بہرکیف انتخابی عمل کے ذریعے جو بھی حکومت قائم ہوئی ہے اِسے بالعموم ایک منتخب جمہوری حکومت ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف کی حکومت کو بھی جمہوری حکومت قرار دینے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس کی نالائقی، بے اعتدالی اور عوامی مسائل سے لاتعلقی نے اس کے جمہوری تشخص کو بری طرح مجروح کردیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ عمران خان اپنی تمام تر ناکامیوں کے باوجود ملک پر بیس پچیس سال تک حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ چین کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پالیسی کے تسلسل کی وجہ سے چین نے قابل رشک ترقی کی ہے۔ وہ بھی پاکستان میں ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں ترقی کے لیے طویل المیعاد منصوبہ بندی کی جائے اور اس پر عملدرآمد میں کوئی رخنہ نہ پڑے۔ بہ الفاظ دیگر وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو بیس پچیس سال کی مدت ملنی چاہیے تاکہ وہ ملک میں جو تبدیلی لانا چاہتے ہیں لاسکیں اور قوم کھلی آنکھوں سے اس تبدیلی کو دیکھ سکے۔ جب کہ موجودہ نظام میں یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پانچ
سال بعد انتخابات ہوں گے تو حکومت بدل جائے گی اور سارا کیا کرایا مٹی میں مل جائے
گا۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت میں طویل منصوبہ بندی نہیں کرتی اور ہمیشہ وقت گزارنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے، جب کہ حکومتی ارکان اس قلیل مدت میں زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی دُھن میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ساری باتیں وہ کبھی کھل کر اور کبھی ڈھکے چھپے انداز میں کئی بار کرچکے ہیں لیکن عمران خان یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عوام بلاوجہ کسی حکومت کو تبدیل نہیں کرتے۔ اگر کوئی حکومت ان کے مفاد میں کام کررہی ہو اور وہ اس کے دور میں سکھی اور آسودہ ہوں اور انہیں زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں باآسانی دستیاب ہوں تو کیا عوام کو کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ وہ ایسی ہر دلعزیز اور مقبول حکومت کو بلاوجہ تبدیل کردیں۔ عام انتخابات کے ذریعے حکومت بدلتی ہی اس بنیاد پر ہے کہ عوام اس سے بیزار ہوچکے ہوتے ہیں اور وہ نئے حکمران کو آزمانا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو بھی اسی کلیے کے تحت اقتدار سونپا گیا تھا کہ عوام سابق حکمرانوں سے مایوس ہوچکے تھے۔ وہ برسر ِ اقتدار آئے تو عوام ان سے غیر معمولی توقعات وابستہ کیے ہوئے تھے۔ خود عمران خان نے بھی اقتدار سنبھالنے سے پہلے انہیں بہت سے رنگین خواب دکھائے تھے لیکن جب اقتدار ان کے ہاتھ میں آیا تو یہ سارے خواب کرچی کرچی ہوگئے اور عوام کو نہایت تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی مرتبہ کسی حکمران نے یہ تسلیم کیا کہ اسے پتا ہی نہ تھا کہ حکومت کیسے کی جاتی ہے اور کیسے اور مملکت پر اپنی گرفت قائم کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ملک مختلف مافیاز کے چنگل میں چلا گیا اور انہوں نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی۔ خاص طور پر مہنگائی نے عوام سے حلق کا نوالہ بھی چھین لیا۔ حکومت کی نصف مدت گزر چکی ہے لیکن حالات میں بہتری آنے کے بجائے اس میں مسلسل تنزلی آرہی ہے اور عوام کی مایوسی ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔ ملکی معیشت پر آئی ایم ایف کی گرفت سے عوام کو حاصل رہی سہی سہولتیں بھی چھینی جارہی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی پنشن بھی آئی ایم ایف کی نظر میں کھٹک رہی ہے جب کہ سرکاری تنخواہوں کا اسٹرکچر بھی اسے قبول نہیں ہے۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے اور حکومت کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ یہ کہہ چکے ہیں کہ سرکاری تنخواہوں اور پنشن کے ساتھ موجودہ نظام نہیں چل سکتا اِسے بدلنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف جب قرض کی نئی قسط جاری کرتا ہے تو اس کے ساتھ نئی شرائط بھی عائد کردیتا ہے اور ان شرائط کا اطلاق فوری طور پر بجلی، گیس اور پٹرول کی مصنوعات کی قیمتوں پر ہوتا ہے۔ یہ وہ بنیادی سہولتیں ہیں جن کی قیمتوں میں اضافے کو اب معمول بنالیا گیا ہے اور عوام کی زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔
اس مایوس کن کارکردگی کے ساتھ عمران حکومت آئندہ انتخابات میں کس منہ سے عوام کے سامنے جائے گی۔ اگرچہ اس کے لیے باقی مدت پوری کرنا بھی دشوار نظر آرہا ہے۔ یہاں نواز شریف نے جو حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہا ہے کہ حالات ایسے بن رہے ہیں کہ شاید دو چار مہینوں میں نئے انتخابات ہوجائیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور اپوزیشن کا لانگ مارچ اور دھرنا بھی ناکام رہتا ہے تو 2023ء بھی کچھ دور نہیں ہے اور عام انتخابات لازماً آئین کے مطابق پانچ سال بعد 2023ء میں ہوں گے۔
اُس وقت حکومت اپنی کیا کارگزاری عوام کے سامنے پیش کرے گی؟ حالیہ ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہوا اس میں آئندہ انتخابات کی ایک جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو الیکشن کمیشن نے کالعدم قرار دے دیا ہے وہاں ری پولنگ ہوگی۔ اگر تحریک انصاف نے فوج اور انتظامیہ کی مدد سے اگلے انتخابات جیتنے کی کوشش کی تو بڑا فساد برپا ہوگا اور ڈر ہے کہ کہیں خون کی ندیاں نہ بہہ جائیں۔ عمران خان انقلاب ایران کی بات بھی کرتے ہیں۔ پتا نہیں بیس پچیس سال حکمرانی کا خواب وہ کس طرح پورا کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں فوجی حکمرانوں نے زیادہ طویل حکمرانی کی ہے۔ جنرل ایوب خان ہوں، جنرل ضیا الحق ہوں، جنرل یحییٰ خان ہوں یا جنرل پرویز مشرف۔ سب تاحیات حکمرانی کرنا چاہتے تھے لیکن سب نہایت عبرت ناک انجام سے دوچار ہوئے۔ عمران خان تو سول حکمران ہیں وہ انتخابات کے ذریعے محض پانچ سال کے لیے برسراقتدار آئے ہیں اگر ان کے اندر بھی طویل حکمرانی کا خواب سرسرا رہا ہے تو یہ نہایت خطرناک بات ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمہوری نظام کی بساط کو لپیٹا چاہتے ہیں، انہیں اس ارادے سے باز رکھنے کے لیے پوری قوم کو کھڑا ہونا پڑے گا۔