مسجد میں شراب خانہ

947

مولانا مودودی نے پاکستان کے نظریے کی بنیاد پر پاکستان کو مسجد کہا ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے اور مسجد میں اللہ کی عبادت کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا، مگر بعض لوگ مسجد میں شراب خانہ کھول لیتے ہیں۔ تعصب عربیت کا ہو یا عجمیت کا ایک نشہ ہے۔ تعصب پنجابیت کا ہو یا مہاجریت کا ایک شراب ہے۔ یہ شراب ایمان اور عقل کو کھا جاتی ہے۔ مگر اس کے باوجود پاکستان کی مسجد میں بڑے بڑے شراب خانے کھلے ہوئے ہیں۔ ’’پنجابیت‘‘ کا شراب خانہ، ’’مہاجریت‘‘ کا شراب خانہ، ’’سندھیت‘‘ کا شراب خانہ، ’’بلوچیت‘‘ اور ’’پشتونیت‘‘ کا شراب خانہ۔ یہاں تک کہ ’’فوجیت‘‘ کا شراب خانہ، پنجابیت کا شراب خانہ برسوں سے شریف خاندان کی ملکیت ہے۔ اس شراب خانے سے کبھی جاگ پنجابی جاگ کی صدا آتی ہے، کبھی شریف خاندان پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ گریٹر پنجاب کے تصور پر گفت و شنید کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ اس شراب خانے سے تازہ ترین صدا مریم نواز کی بلند ہوئی ہے۔ دیکھیے تو وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
’’میں پنجاب کی بیٹی ہوں، پنجاب کی بات کیوں نہ کروں۔ وزیرآباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈسکہ میں پنجاب کی بات کی تو حکومت کو بڑی مرچیں لگیں۔ انہوں نے کہا کہ مریم ’’پنجابی کارڈ‘‘ کھیل رہی ہے۔ مریم پنجاب کی بیٹی ہے پنجاب کی بات کیوں نہ کرے۔ نواز شریف اور شہباز شریف کے بغیر پنجاب لاوارث ہی نہیں ہوا یتیم بھی ہوگیا ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ کراچی، 16 فروری 2021ء)
اب تک محاورہ یہ تھا۔
باپ پہ پوت پتا پر گھوڑا
زیادہ نہیں تو تھوڑا تھوڑا
مریم نواز نے اس محاورے کو بدل دیا ہے۔ اب یہ محاورہ اس طرح بھی اپنی بہاریں دکھا سکتا ہے۔
باپ پہ دھی پتا پر گھوڑی
زیادہ نہیں تو تھوڑی تھوڑی
اسلام ہر نسلی، لسانی اور جغرافیائی تعصب کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ اسلام کہتا ہے فضیلت رنگ، نسل، زبان اور جغرافیے میں تھوڑئی ہے فضلیت تو صرف تقوے اور علم میں ہے۔ جو متقی ہے وہی خدا کے سب سے زیادہ قریب ہے۔ جو علم رکھتا ہے وہی خدا کے عرفان کے خزانے کا حامل ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں شعوب اور قبائل میں تقسیم کیا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ شعوب اور قبائل کی بنیاد پر اپنا تشخص متعین کرنا ضلالت اور گمراہی ہے۔ مدنی زندگی کے آغاز پر ایک مہاجر اور ایک انصاری میں جھگڑا ہوگیا۔ مہاجر نے اپنی مدد کے لیے مہاجروں کو پکارا۔ انصاری نے انصاریوں کو آواز دی۔ کسی نے رسول اکرمؐ کو اطلاع دی تو آپؐ موقع پر پہنچے اور فرمایا میں نے تمہیں جس گڑھے سے نکالا تھا تم پھر اسی گڑھے میں خود کو گرا رہے ہو۔ عظمت ہوتی تو ’’مہاجریت‘‘ میں ہوتی۔ یا پھر انصاریت میں۔ اس انصاریت میں جس نے مہاجروں میں اپنی زمین جائدادیں بانٹ دیں۔ یہاں تک کہ ایک انصاری نے کہا میری دو بیویاں ہیں۔ مواخات کے جذبے کے تحت میں اپنی ایک بیوی کو طلاق دیتا ہوں تا کہ وہ کسی مہاجر کے عقد میں آسکے۔ مگر اس مہاجریت اور اس انصاریت میں بھی کوئی عظمت نہ تھی۔ عظمت تو صرف تقوے اور علم میں ہے۔ جس کے پاس تقویٰ ہے وہ افضل ہے یا پھر وہ جس کے پاس علم ہے۔
اسلام کے اس فلسفے کا مصورِ پاکستان اقبال اور بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پر گہرا اثر ہے۔ اقبال کہتے ہیں۔
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
اقبال کے نزدیک مسلمان کا بازو پنجابیت، مہاجریت، پشتونیت، سندھیت، بلوچیت کی قوت سے قوی نہیں ہے۔ مسلمان کا بازو صرف اسلام کی قوت سے قوی ہے۔ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کا دیس پنجابیت میں ڈوبا ہوا پنجاب اور سندھیت میں ڈوبا ہوا سندھ نہیں ہے بلکہ اقبال کے نزدیک مسلمان کا دیس بھی اسلام ہے، جہاں اسلام نہیں وہاں کچھ بھی نہیں۔ اقبال کی نظر میں مسلمانوں کا تشخص یہ نہیں کہ وہ پنجابی، مہاجر یا سندھی ہے۔ دیوبندی، بریلوی یا اہلحدیث ہے۔ بلکہ مسلمانوں کا تشخص یہ ہے کہ وہ سب مصطفوی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں۔
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
مگر اقبال کے پاکستان میں پنجابیت، مہاجریت، سندھیت، بلوچیت اور پشتونیت کے بت پوجے جارہے ہیں۔ ملت اور امت کے تصور کی تذلیل کی جارہی ہے اور تعصبات کے بت خانوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مریم نواز خود کو ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ قرار دے کر اس پر فخر کررہی ہیں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا۔
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں، لیکن یہ پوچھتا ہوں کیا آپ وہ سبق بھول گئے جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا۔ اگر مجھے اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ یہ سب باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں بنگال کے اصل باشندے کون تھے؟ وہ ہرگز نہیں جو آج کل بنگال میں رہتے ہیں۔ چناں چہ یہ کہنے کا آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی ہیں، ہم سندھی ہیں، ہم پٹھان ہیں، نہیں، ہم مسلمان ہیں۔ اسلام نے ہمیں یہی سبق دیا ہے۔ آپ خواہ کچھ ہوں، کہیں ہوں آپ اوّل و آخر مسلمان ہیں۔ اب آپ ایک باقاعدہ قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب آپ نے ایک وسیع علاقہ اپنے تسلط میں کرلیا ہے۔ جو آپ کا اپنا ہے۔ یہ پنجابیوں کا ہے نہ سندھیوں کا، پٹھانوں کا ہے نہ بنگالیوں کا، یہ آپ کا ہے۔ آپ کی اپنی ایک مرکزی حکومت ہے جس میں جغرافیائی وحدتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ اس لیے اگر آپ خود کو ایک عظیم قوم میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو خدا کے لیے صوبائی عصبیت کو ترک کردیجیے۔ صوبائی عصبیت شیعہ سنی فرقہ پرستی کی طرح ایک بڑی لعنت ہے‘‘۔
(جلسہ عام، ڈھاکا۔ 21 مارچ 1948ء)
کتنی عجیب بات ہے کہ قائد اعظم جس عصبیت کو ’’لعنت‘‘ کہہ رہے ہیں مریم نواز اس عصبیت پر فخر کرتی ہوئی پائی جارہی ہیں۔ قائد اعظم ہمیں صرف اسلامی تشخص کو اختیار کرنے کا درس دے رہے تھے اور مریم نواز خود کو پنجاب کی بیٹی باور کراکے اسلامی تشخص کا مذاق اڑا رہی ہیں۔
قائد اعظم نے ایک اور موقع پر بڑی اہم باتیں کہیں۔ قائد اعظم نے فرمایا۔
’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے۔ وطن نہیں اور نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا۔ ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی‘‘۔
(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 8 مارچ 1948ء)
قائد اعظم کہہ رہے ہیں ہماری قومیت کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ مریم نواز کہہ رہی ہیں کہ ان کے لیے اصل چیز پنجاب کی بیٹی ہونا ہے۔ قائداعظم کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں کی بنیاد نسل اور جغرافیہ نہیں ہے مگر مریم پنجابیت پر اصرار کرکے نسل اور جغرافیے ہی کو اصل بنانے پر تُلی ہوئی ہیں۔
یہاں قائداعظم کی اس تقریر کا ذکر بھی ضروری ہے جس میں قائد اعظم نے برصغیر کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کو سراہا ہے۔ قائداعظم نے اس سلسلے میں کیا فرمایا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔
’’مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان خود دار اور بلند حوصلہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ مسلم اکثریت کے صوبوں میں رہنے والے مسلمان بھائیوں کی نجات اور آزادی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اپنے بھائیوں کے راستے میں مزاحم ہونے اور انہیں متحدہ ہندوستان میں گھسیٹنے سے ہم کسی طرح اپنی حالت کو بہتر نہیں بناسکتے بلکہ اُلٹا ان کی حیثیت کو بھی گھٹا کر ہم اقلیت بنادیں گے۔ چناں چہ ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہوجائے ہم اپنے بھائیوں کو ہندو اکثریت کا حلقہ بگوش نہ بننے دیں گے‘‘۔
(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 10 مارچ 1941ء)
ظاہر ہے کہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان کے لیے اس لیے قربانی نہیں دی تھی کہ وہاں پنجابیت کا راج ہوگا، وہاں مہاجریت پھنکارے گی، وہاں سندھیت دہاڑے گی، وہاں بلوچیت اور پشتونیت کا پرچم بلند ہوگا۔ بلکہ ہندوستان کے اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے پاکستان کے لیے اس لیے قربانی دی تھی کہ پاکستان اسلام کا قلعہ بنے گا۔ پاکستان لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کے کلمے کے تحت ایک مسجد بن کر اُبھرے گا۔ افسوس پاکستان کے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے مسجد میں تعصبات کے شراب خانے کھول لیے ہیں۔ یہ اسلام سے کھلی غداری ہے۔