اندھی محبت

400

کہتے ہیں کہ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اس میں تھوڑا سا اضافہ کرلیا جائے موجودہ صورتحال میں کہ محبت نہ صرف اندھی ہوتی ہے بلکہ یہ بہری اور گونگی بھی ہوتی ہے، محبت کسی سے بھی ہوجائے تو انسان محبت میں ہر مشکل کام کرجاتا ہے۔ مثال کے طور پر لیلیٰ مجنوں، شیریں فرحاد اور سسی پنّوں کے قصّے میں یہ واقعات قارئین نے پڑھے بھی ہوںگے اور سنے بھی ہوںگے۔ یہ تمہید اس پس منظر میں باندھی گئی ہے کہ شہر کراچی بلکہ پورا سند ھ کئی سال سے آوارہ کتّوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے۔ سندھ یونیورسٹی جامشورو کی ملازمہ کی پوتی کی افسوس ناک موت یا گمبٹ کے رہائشی شخص کی موت کا ذکر کیا جائے جنہیں کتوں نے کاٹ کھایا یہ ایک دو نہیں بے شمار واقعات ہیں جن میں عورتوں، بچّوں اور مردوں کو کتّوں نے کاٹا اور وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ آج ہر گلی اور سٹرکوں پر کتوں کے غول کے غول نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے شہری خوف محسوس کررہے ہیں۔
بجلی، پانی ہوشربا مہنگائی نے ویسے ہی عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اور اس بوجھ تلے انسان کی کمر تہری ہوئی جارہی ہے اس پر یہ تیسری آفت کتّوں کی بھر مار ہے۔ چند سال پہلے جب کتوں کی تعدا د میں اضافہ ہوتا تو شہری حکومت ’’کتّا مار‘‘ مہم چلاتی اور گلی محلّوں سے کتّوں کا صفایا کردیا جاتا تھا یہ قدم شہریوں کی جان کے تحفّظ کے پیش نظر اٹھایا جاتا تھا مگر صاحب اب تو تبدیلی آگئی ہے ناں! پہلے تو ہمارے حکمرانوں کے دل میں انسانوں سے محبت تھی مگر کیا کیا جائے اب تو الٹی گنگا بہ رہی ہے انسانوں کی محبت سے نکل کر اب ہمارے حکمران کتّوں کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں۔ اور محبت تو اندھی ہوتی ہے۔۔۔ کسی سے بھی ہوجاتی ہے۔
گزشتہ دنو ں ایک تصویر میں عمران خان کو کتّوں کی خدمت کرتے دیکھا وہ موصوف کتّوں کو کھانا کھلانے میں مصروف نظر آئے۔ کیا عوام کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں؟ کیا ملک سے غربت افلاس ختم ہوچکی ہے، پینے کا صاف پانی ہر گھر تک پہنچ رہا ہے، ایک کروڑ نوکریوں نے بیروزگاری ختم کردی ہے، پچاس لاکھ گھروں نے ہر خاندان کو جو سڑکوں کے کنارے اور پلوں کے نیچے سر چھپانے پر مجبورہے چھت فراہم دی ہے، ملک کا ہر بچہ اسکول جارہا ہے، کیا دہلیز پر انصاف مل رہا ہے؟ اتنی فراغت سے کتوں کی خدمت کرتے دیکھ کر تو قوم یہی سمجھ رہی ہے ناں کہ حکمرا ن اپنی ذمے داریوں سے عہدہ براء ہوچکے ہیں اور اب وہ اپنے فارغ اوقات میں اپنے شوق پورے کررہے ہیں۔
حکومت کو ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی سے تشویش لاحق ہے اور اس فکر میں حکومت دبلی ہوئی جارہی ہے اور اس کی راتوں کی نیند حرام ہوئی جارہی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک، علاج، رہائش اور تعلیم کا مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ مگر کتّوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ماتھے پر شکن بھی نہیں ہے۔ اب آتے ہیں اصل کی طرف آج کل حقوق انسانی تنظیموں اور این جی اوز کی طرف جس کی محبت میں حکمران آج گرفتار ہے یہ کتّوں کی محبت بھی دراصل یہیں سے ملی ہے یہ وہ سفّاک طبقہ ہے جس کے کتّوں کی خوراک کا خرچ ماہانہ ایک غریب آدمی کی مہینے بھر کی تنخواہ سے زیادہ ہے۔ یہ تقریروں میں تو لچھّے دار باتیں کرتے ہیں مگر ان کی نظر سے وہ تصویر نہیں گزرتی جس میں معصوم بچّے کچرے کے ڈھیر میں اپنا رزق ڈھوندتے پھر تے ہیں۔ یہ کتّوں کے کاٹنے کی صورت میں جو ویکسین مریضوں کو دی جاتی ہے وہ سرکاری اسپتالوں سے غائب کرادیتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہاں سے تعلیم حاصل کرکے ہم پر مسلّط ہوتے ہیں جو مہذب دنیا کے انسان دوست ہیں اور جوحقوق کے علمبردار ہیں کہ ایک ہرن کی زندگی بچانے اور جانوروں کی کسی نایاب نسل کے تحفظ کے لیے بے چین ہوجاتے ہیں اور افغانستان پر کارپٹ بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کی لاشوں پر ہوائی جہاز سے ڈبل روٹیاں گراتے ہیں تاکہ کوئی انسان بھوک سے نہ مرجائے۔
پورے سند ھ میں کتّوں کے کاٹنے سے زخمی اور مرنے والوں کے لواحقین کی آہیں اور پکار ہے مگر یقینا محبت اندھی اور بہری ہوتی ہے۔ یہ محبت کتّوں کے بھونکنے کو لوری سمجھتی ہے اور آرام سے سوتی ہے۔ حال ہی میں جماعت اسلامی نے کتوں کے کاٹنے سے ہونے والی ہلاکتوں کا مسئلہ اٹھایا ہے بلکہ اس پر سندھ ہائی کورٹ نے بھی ان آوارہ کتّوں کو ختم کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ جس علاقے میں بھی کسی کو کتا کاٹے گا اس علاقے کے میونسپل افسر کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا اور سندھ ہائی کورٹ سکھر کا یہ بھی سخت فیصلہ سامنے آیا کہ جس علاقے میں بھی اب کسی کتّے نے کاٹا وہاں کے ایم پی اے معطل کردیا جائے گا۔ مگر ان ہلاکتوں کے باوجود ایم پی اے بھی اپنی جگہ بحال ہیں اور کتّے بھی دندناتے پھر رہے ہیں عدالت کو حکومت سے جواب طلب کرنے کا حق ہے کہ اب تک کتنے ایم پی اے کو معطل کیاگیا اور کتّوں کو کیوں ختم نہ کیا گیا۔ میونسپل افسر کے خلاف مقدمے کا فیصلہ تو سمجھ آتا ہے کہ وہ اس بات کا ذمے دار ہے کہ شہر میں کتّوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ختم کرنے کے لیے شہر کے وسائل کو استعمال کرے اور شہریوں کو اس مصیبت سے نجات دلائے مگر بے چارے ایم پی اے کا تعلق تو سندھ اسمبلی سے بنتا ہے اور یہ تو ایک قانون ساز ادارہ ہے۔ وہ تو زیادہ سے زیادہ قرار داد پیش کرسکتے ہیں یا کوئی قانون اسمبلی سے پاس کرا سکتے ہیں۔ مگر یہ تو ہماری عدالتیں ہیں یہاں سے کچھ بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ مگر بہر حال سندھ حکومت کو این جی اوز کی ناراضی کے خوف سے باہر آکر شہریوں کی جانوں کی حفاظت کی خاطر شہر میں بھرپور ’’کتّا مار‘‘ مہم چلانی چاہیے۔