میانمر میں 29 صحافیوں سمیت 1700 گرفتار ،اقوام متحدہ کی مذمت

398

نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سربراہ نے میانمر کی سیکورٹی فورسز سے کہا ہے کہ وہ پُرامن مظاہرین کے خلاف قابل مذمت کریک ڈاؤن کا سلسلہ بند کرے۔ مشیل باشیلیٹ کی طرف سے جاری کردہ بیان میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حالیہ مظاہروں کے دوران 1700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں 29 صحافی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے میانمر کی فوج سے مطالبہ کیا ہے کہ غیر قانونی طور پر گرفتار شدہ تمام افراد کو رہا کیا جائے۔ میانمر میں فوجی جنتا کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے جاری مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کی طرف سے 54 افراد مارے جا چکے ہیں۔ ادھر میانمر میں گزشتہ ماہ کی فوجی بغاوت کے بعد کی صورتحال پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آج جمعہ کے روز اجلاس منعقد کرنے کا منصوبہ ہے۔ سلامتی کونسل نے یہ اجلاس بند کمرے میں منعقد کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ میانمر میں یکم فروری کو فوج کے تختہ الٹنے کے بعد سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ فوج مظاہرین کے خلاف پکڑ دھکڑ کے اقدامات سخت کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی نمایندہ خصوصی برائے میانمر کرسٹین شرانر برگنر نے ’’بدھ‘‘ کو فوجی بغاوت کے بعد کا سب سے خونی دن قرار دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف اس ایک دن میں مظاہروں کے دوران 38 افراد ہلاک کیے گئے ۔ اس دوران پولیس نے مظاہرین پر دھاتی وربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف تشدد اور مظاہرین کو گولی مارنے کی وڈیوز انتہائی تشویش ناک ہیں۔ میانمر کی عملی حکمران آنگ سان سو چی اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام کو فوج کی جانب سے حراست میں لیے جانے کے بعد سے یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دوسرا اجلاس ہو گا۔ گزشتہ اجلاس میں میانمر سے حلیف ملک چین کی مخالفت کے باعث سلامتی کونسل کے بیان میں فوجی بغاوت کی مذمت نہیں کی گئی تھی۔